سوال (4315)

ایک بندہ صرف قتل کرنے کا حکم دیتا ہے اور دوسرا بندہ اس کو قتل کرتا ہے اور تیسرا بندہ قتل کی مکمل پلاننگ میں شریک ہوتا ہے اور مشورے دیتا ہے کہ کیسے قتل کیا جائے اور کہاں قتل کیا جائے تو کیا یہ تینوں برابر کے شریک ہیں ، یعنی ان سب کا بدلہ قتل ہی ہے۔

جواب

جی تینوں شامل ہیں کیونکہ تینوں کا مقصد ایک ہے۔
والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ

قتلِ ناحق اسلام میں ایک نہایت سنگین جرم ہے، اور اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اسے تمام انسانیت کے قتل کے برابر قرار دیا ہے۔ قال الله تعالیٰ:

“من قتل نفساً بغیر نفس أو فساد في الأرض فكأنما قتل الناس جميعاً”[المائدة: 32]

سوال میں ذکر کردہ تینوں افراد کے افعال الگ الگ نوعیت کے ہیں، لہٰذا ان کا شرعی حکم بھی ان کی حیثیت اور کردار کے مطابق مختلف ہوگا۔
براہِ راست قاتل: یہ وہ شخص ہے جس نے مقتول کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا۔ اگر اس نے جان بوجھ کر، ظلم اور ناحق قتل کیا ہے، تو اس پر قصاص واجب ہے، جیسا کہ فرمایا: ‘

“یا أیها الذین آمنوا کتب علیکم القصاص في القتلی…” [البقرۃ: 178]

مقتول کے ورثاء کو اختیار ہے کہ وہ قصاص لیں یا دیت پر راضی ہو جائیں یا معاف کر دیں۔
قتل کا حکم دینے والا وہ شخص ہے جس نے دوسرے کو قتل کا حکم دیا، یا اس کو اکسانے والا فقہاء کے نزدیک اگر یہ محض حکم دینے والا ہے اور اس نے خود قتل میں عملی شرکت نہیں کی، تو جمہور فقہاء (امام ابو حنیفہ، شافعی، وغیرہ) کے نزدیک اس پر قصاص نہیں ہوگا، البتہ وہ تعزیر (یعنی قاضی کی طرف سے مقرر کردہ سخت سزا) کا مستحق ہے، خصوصاً اگر وہ قتل کا محرک ہے۔
بعض فقہاء (مالکیہ، حنابلہ) کے نزدیک اگر قتل اس کے حکم سے ہوا اور قاتل اس کا آلۂ کار تھا، تو وہ بھی قصاص میں شامل ہو سکتا ہے۔
منصوبہ ساز اور مشورہ دینے والا وہ شخص ہے جو قتل کی پلاننگ میں شریک ہوا، مشورے دیے، وقت و مقام طے کیے، ہتھیار یا راستہ تجویز کیا۔ ایسا شخص معاون ہے۔ اگر اس کی شرکت مؤثر تھی اور قتل اسی کی مدد سے ممکن ہوا، تو وہ بھی سخت گناہ گار ہے۔اس پر بھی تعزیر لازم ہے، اور قاضی اسے سخت سزا دے سکتا ہے۔ بعض شدید صورتوں میں قاضی اس پر بھی قصاص کا حکم جاری کر سکتا ہے۔
یہ عمومی رائے ہے لیکن اس طرح کے مسائل میں جب کوئی معاملہ درپیش ہو تو قاضی وقت تینوں کے کردار کا مکمل جائزہ لے کر فیصلہ کرتا ہے کہ کیا سہولت کاری اور منصوبہ بندی کا قتل میں کیا حصہ تھا، قتل کے عوامل و اسباب لہذا صرف علمی حد تک یہ کہہ دینا بسا اوقات کافی نہ ہو.

فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ