’’قاتلینِ عثمان رضی اللہ عنہ‘‘

سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے والا اُوباش و بدمعاش غنڈوں کا فسادی ٹولہ تھا۔ کوئی بھی عزت دار شخص اِس کارِ بد میں شریک نہیں تھا، اسی لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مطابق بھی یہ لوگ ملعون تھے ۔

⇚جیسا کہ محمد بن حنفیہ رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں :

بَلَغَ عَلِيًّا أَنَّ عَائِشَةَ تَلْعَنُ قَتَلَةَ عُثْمَانَ فِي الْمِرْبَدِ، قَالَ: فَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى بَلَغَ بِهِمَا وَجْهَهُ فَقَالَ: وَأَنَا أَلْعَنُ قَتَلَةَ عُثْمَانَ، لَعَنَهُمُ اللَّهُ فِي السَّهْلِ وَالْجَبَلِ، قَالَ مَرَّتَيْنِ أَوْ ثَلَاثًا.
’’سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو خبر ملی کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا قاتلینِ عثمان پر لعنت کر رہی ہیں تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اپنے ہاتھوں کو چہرے تک اٹھا لیا اور دو تین مرتبہ کہا : ’’اے اللہ! قاتلینِ عثمان پر لعنت فرما، زمین کے ہر ٹکڑے پر اللہ کی طرف سے ان پر لعنت ہو۔‘‘

(فضائل الصحابة لأحمد : ٧٣٣، الفتن لنعيم : ٤٤٨ وسنده صحیح)

⇚اسی طرح صحابہ ان سے براءت کا اظہار کرتے تھے جیسا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :

«لَوْ أَعْلَمُ بَنِي أُمَيَّةَ يَقْبَلُونَ مِنِّي لَنَفَلْتُهُمْ خَمْسِينَ يَمِينًا قَسَامَةً مِنْ بَنِي هَاشِمٍ مَا قَتَلْتُ عُثْمَانَ وَلَا مَالَأْتُ عَلَى قَتْلِهِ»

’’اگر بنو امیہ میرا یقین کر لیں تو میں بنو ہاشم کی مصالحت میں پچاس قسمیں اٹھانے کو تیار ہوں کہ نہ تو میں نے عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کیا ہے اور نہ اِس میں کسی کا ساتھ دیا۔‘‘

(تاريخ المدينة لابن شبة: ٤/‏١٢٦٩ وسنده صحیح)

بعض جاہلوں نے یہ بات مشہور کر رکھی ہے کہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلین میں صحابہ کرام بھی شامل تھے جبکہ یہ بات بالکل جھوٹ اور گھڑنتل ہے۔

⇚شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ (٧٢٨هـ) فرماتے ہیں :

’’مسلمانوں کے بہترین لوگوں یعنی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کوئی بھی سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو شہید کرنے میں شامل نہیں ہوا، نہ شہید کیا اور نہ شہید کرنے کا حکم دیا، بلکہ انہیں شہید کرنے والا مختلف قبائل کے اُوباش غنڈوں کا فسادی ٹولہ اور فتنہ پرور لوگ تھے۔‘‘

(منهاج السنة : ٤/ ٣٢٣)

⇚حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ (٧٧٤هـ) فرماتے ہیں :

’’اِن قاتلینِ عثمان میں سے کوئی ایک بھی صحابی نہیں تھا۔ الحمد للہ ۔‘‘
(البداية والنهاية : ١٠/ ٤٥١)

⇚حافظ نووی رحمہ اللہ (٦٧٦هـ) فرماتے ہیں :

’’سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی شہادت میں کوئی بھی صحابی شریک نہیں ہوا۔‘‘
(شرح صحيح مسلم : ١٥/ ١٤٨)

حافظ محمد طاھر حفظہ اللہ