قتل حسین اصل میں مرگ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد

عرف عام میں یہ شعر مولانا محمد علی جوہر سے منسوب کیا جاتا ہے۔ لہذا ہم بھی عرف پر اعتبار کرتے ہوئے اس شعر پر بات کریں گے۔
مجھے میرے بے شمار طلباء نے عاشوراء کی مناسبت سے یہ شعر بھیجا اور سوشل میڈیا پر بھی بہت زیادہ نشر ہوا یہاں تک کہ بڑی جماعتوں نے اپنے سوشل میڈیا پر اسے باقاعدہ نشر کیا ۔
عرض ہے کہ
یہ اور اس جیسے فکر روافض کی نمائندگی کرتے ہوئے دیگر اشعار جس طرح غیر محسوس انداز میں عوام الناس کو اسلام سے دور کر رہے ہیں وہ بہت المناک رویہ ہے یہاں تک رسول اللہ ﷺ کے کفار سے غزاوات جو کہ فی الواقع اسلام و کفر کے مابین ایک واضح فرق ہیں انہیں بھی یہ مقام نہیں دیا گیا تو کیا یہ ان سب کی توہین نہیں ہے۔
اول:
حسین رضی اللہ عنہ کا قتل و شہادت کس طرح یزید رحمہ اللہ کی موت ہے یہ مجھے آج تک سمجھ نہیں آ سکی کیونکہ ایک وقت تھا جب شاہ بلیغ الدین رحمہ اللہ نے لیاقت آباد ایک جلسہ میں یزید رحمہ اللہ کے نعرے لگوائے تھے تو یہ پہلا موقع تھا کراچی میں ورنہ یزید رحمہ اللہ کا نام لینا بہت بڑا جرم ہوتا تھا اور تحقیقی میدان میں پھر دادا ابو رحمہ اللہ نے اس حوالے سے لکھا اور پچھلے چالیس سالوں سے تو یہ تعداد اب سینکڑوں سے متجاوز کر چکی ہے جو یہ حق بیان کر رہے ہیں کہ یزید رحمہ اللہ کا سید نا حسین رضی اللہ عنہ کے قتل سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اور مخالفت میں دلائل کا سامنا صرف یہ کہہ کر کیا جاتا ہے کہ اللہ تمہارا حشر یزید کے ساتھ کرے۔
دوم:
یہ کس اسلام کی بات کی جا رہی ہے جو کربلا کے بعد زندہ ہوتا ہے ہم تو اس اسلام کو جانتے ہیں جو اللہ کا پسندیدہ دین ہے اور جو کائنات کے آغاز سے ہے اور اختتام تک رہے گا۔ کہیں ایسا تو نہیں یہ اسلام کا نام لے کر مجوسیت و مانویت کی بات کر رہے ہوں۔ کیونکہ یہی طریقہ واردات مختلف گمراہ فرقوں نے اختیار کیا کہ اسلام کا نام لے کر اپنے گمراہ کن افکار نشر کیے اور سادہ لوح مسلمان اسلام کا نام سن کر اسے قبول کر لیتے ہیں بالکل ایسے ہی جیسا کہ تصوف نے کیا۔ جبکہ ہمارا دین اسلام تو زندہ جاوید دین ہے جو کسی کی پیدائش ، وفات یا شہادت سے ختم نہیں ہوتا اور نہ ہی زندہ ہوتا ہے۔ اور اس دین کی بنیاد اللہ کے کلام اور رسول اللہ ﷺ کی حدیث ہے۔
سوم:
ہم اس شعر میں اسلام کو دین اسلام ہی فرض کر لیتے ہیں تو کیا یہ غزوہ بدر جسے قرآن مجید اور احادیث میں کفر و اسلام کے مابین فرق کہا گیا اس کی توہین نہیں اور کیا تمام تر غزاوات رسول ﷺ کی توہین و گستاخی نہیں اور خلافت راشدہ میں جہادی معارک جن کی بدولت اسلام کی نشر واشاعت دنیا کے ایک بڑے خطے میں ممکن ہوئی کیا ان سب کی توہین نہیں ہے ۔
چہارم:
شہادت حسین رضی اللہ عنہ فی الواقع تاریخ مسلمانان عالم کا ایک المناک باب ہے لیکن صرف ایک حسین رضی اللہ عنہ کی شہادت ہی کیوں اس سے قبل سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ ، سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ ، سید عثمان غنی رضی اللہ عنہ اور سید نا علی رضی اللہ عنہ کی شہادت کو یہ مقام آخر کیوں نہیں دیا جا رہا کچھ تو ہے آخر جس کی پردہ داری مراد ہے؟
پنجم:
قاتلین سید نا حسین رضی اللہ عنہ پر اللہ کی لعنت ہوں اہل سنت وجماعت ان سے مکمل برات کا اظہار کرتے ہیں لیکن فتنہ مقتل حسین رضی اللہ عنہ کے نام پر کسی کو گالیاں دینا، فاسق فاجر قرار دینا صرف اور صرف جھالت ہے یا خبث باطن کا اظہار ہے۔ واقعہ کربلا روایات کی روشنی میں مکمل طور پر بیان کرنا ہی ناممکن ہے۔ کیونکہ جنہوں نے دیکھا وہ کچھ اور بیان کرتے ہیں اور ہمارے ذاکرین جو کچھ بیان کرتے ہیں وہ ابو مخنف کی مقتل حسین سے ماخوذ ہے بلکہ اب تو ہماری صفوں میں ایسے لوگ پیدا ہو چکے ہیں جو ذاکرین سے بڑھ کر یہ خدمت انجام دے رہے ہیں۔
ششم:
جنت کے پھولوں سے کسی بدنصیب کو ہی پیار نہ ہو گا اور جنت کے یہ پھول رسول اللہ ﷺ کے آنگن کا حسن بھی ہوں لیکن محبت میں غلو ، افراط و تفریط قطعا مناسب نہیں ہے۔
ہفتم:
سید نا حسین رضی اللہ عنہ اور یزید رحمہ اللہ کا کوئی تقابل بنتا ہی نہیں ہے صحابی رسول کا تابعی سے تقابل صحابی رسول کی توہین ہے لہذا یزید رحمہ اللہ بطور امیر المومنین و خلیفہ ان کا جتنا بھی افضل مقام ہو وہ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ سے افضل نہیں ہو سکتے۔ اس لیے کہ رسول اللہ ﷺ کی خبر کے مطابق صحابی رسول کی مد بھی غیر صحابی کے احد پہاڑ جتنے صدقے سے افضل ہے۔
ہشتم:
واقعہ کربلا کی آڑ میں جس طرح اسلام کے حسن کو مسخ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے گویا کہ پورا اسلام واقعہ کربلا ہی کی بنیاد پر قائم ہے یہاں تک کہ محرم الحرام کی حرمت کو بھی شہادت حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ وابستہ کر دیا جاتا ہے جب کہ سورہ توبہ کی آیت کے مطابق محرم کی حرمت بھی دیگر حرمت والے مہینوں کی حرمت کی طرح کائنات کے آغاز سے ہے۔ اور اس کی حرمت کا فیصلہ اللہ تعالی کا فیصلہ ہے جس کا تعلق کسی کی پیدائش ، وفات یا شہادت سے قطعا نہیں ہے۔
نہم:
یہ شعر اکیلا نہیں ہے بلکہ پچھلے دنوں موحدین کی جانب سے ایسے کئی شرکیہ اشعار نشر کیے گئے جیسا کہ یہ شعر ہے
یزید موسم عصیاں کا لا علاج مرض
حسین خاک سے خاک شفا بناتا ہے
اب یہ خاک سے خاک شفا بنانے کا اختیار حسین رضی اللہ عنہ کیا نفع نقصان کو اللہ تعالی کے علاوہ کسی اور کو دینے کے مترادف نہیں ہے ؟ یعنی حب حسین رضی اللہ عنہ کی آڑ میں شرکیہ افکار کو نشر کرنا حیران کن ہے۔
دہم:
اہل سنت و جماعت اس طرح کی تمام شعوری و لاشعوری رافضیت سے مکمل برات کا اظہارکرتے ہیں اور محرم کے مہینے میں ذاکرین سے بڑھ کر اللہ کے مہینے کو ماتم کا مہینہ بنانے سے بھی برات کا اطہار کرتے ہیں۔ ہماری اہل بیت اطہار اور حضرات حسنین رضی اللہ عنہما سے محبت کسی ایک دن کی محبت نہیں بلکہ پورے سال بلکہ پوری زندگی کی محبت ہے اور صرف اہل بیت اطہار اور حضرات حسنین رضی اللہ عنہما سے ہی نہیں بلکہ تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علہیم اجمعین بشمول امیر المومنین سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ وغیرھم سےمحبت بھی ہمارے ایمان کا لازمی جزو ہے۔
تلک عشرۃ کاملۃ

شاه فيض الابرار صدیقی