سوال (2282)

قومی ترانے کی تعظیم و تکریم کے لیے کھڑے ہونا ٹھیک ہے یا کس حد تک غلط ہے؟

جواب

یہ رجز ہوتے ہیں، جو ہمیشہ کھڑے ہوکر سینہ تان کر پڑھے جاتے تھے۔ اس میں تعظیم کا کوئی سوال نہیں ہے۔

فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ

پڑھنا ہے تو کھڑے ہو جائیں بس قیام تعظیم درست نہیں ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

نیشنل ازم پورا ایک نظامِ فکر ہے اور یہ عمل اسی کا شعار ہے، پہلی بات تو یہ اسے قومی فریضہ قرار دینا کفار کی نقالی ہے، جو کہ سراسر ناجائز ہے۔ پھر محض تعظیم و توقیر کی غرض سے کھڑا ہونا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے لیے بھی درست نہیں جیسا کہ احادیث سے معلوم ہے۔
واللہ اعلم باالصواب

فضیلۃ الباحث ثناء الرحمن حفظہ اللہ

اگر قومیت ہے بھی تو وہ اسلامی قومیت ہے۔ وہ بڑی اکائی ہو یا چھوٹی اکائی۔ حدیث کی تفہیم بھی آپ نے درست نہیں کی، اس طرح کھڑے ہونا ممنوع ہے کہ ایک بندہ بیٹھا ہو اور دیگر سبھی اس کے حضور کھڑے ہوں جیسے لوگ بادشاہوں کے درباروں میں کھڑے رہتے تھے۔ اس میں بھی وعید اس کے لیے ہے جو بیٹھا ہو اور جس کی تعظیم میں لوگ کھڑے ہوں۔

فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ

کھڑے ہو کے پڑھے جاتے ہوں گے، کھڑے ہو کے سنے تو نہیں جاتے۔

فضیلۃ الباحث ثناء الرحمن حفظہ اللہ

جو سن رہے ہوتے ہیں، وہ بھی پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ اس میں محض قوت کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔

فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ

واللہ اعلم
بہر حال تعظیم کا پہلو تو ہوتا ہی ہے، عموماً دیکھا گیا ہے لوگ ٹی وی کے سنگ بھی کھڑے ہو جاتے ہیں، لوگوں کا بیٹھا ہونا اور ترانہ لگتے ہی نہ صرف کھڑے ہو جانا بلکہ اسے ضروری بھی سمجھنا، تعظیم نہیں ہے؟

فضیلۃ الباحث ثناء الرحمن حفظہ اللہ

شیخ، فرض اور واجب کون کہہ رہا ہے؟ میں تو عرف کی بات کر رہا ہوں کہ جہاں سب کھڑے ہوں، وہاں بلا وجہ کی مخالفت درست نہیں ہے ، ٹی وی کے سامنے نہ کھڑے ہوں۔

فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ

عرف تو پھر یہی ہے کہ لوگ اسے قومی فریضہ سمجھ رہے ہیں، وطن سے محبت کا لازمی تقاضا سمجھتے ہیں، اگر کوئی کھڑا نہ ہو تو اسے شک کی نظروں سے بھی دیکھا جاتا ہے اور نہ کھڑا ہونے کو وطن کی بے حرمتی سمجھا جاتا ہے ، اس لیے سوال میں بھی یہ بات موجود ہے کہ تعظیما کھڑا ہونا کیسا ہے؟
تو پھر ہم یہ کیوں فرض کریں کہ تعظیم ہوتی ہی نہیں جبکہ سائل خود اپنی کیفیت واضح کرتا ہے۔ اللہ آپ کا اقبال بلند کرے، خلافِ معمول سیکھنے کی نیت سے چند میسجز پے در پے کیے ہیں، یقیناً آپ درگزر فرمائیں گے۔

فضیلۃ الباحث ثناء الرحمن حفظہ اللہ

اسلامی ریاست سے وفاداری کے اظہار کے لیے ہی کھڑے ہوتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے، آپ اسے تکریم کہنا چاہتے ہیں تو کہہ لیں۔ یہ بہرحال ایک مباح عمل ہے۔

فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ

شیخ بن باز نے ناجائز قرار دیا ہے۔

هل يجوز الوقوف لتحية العلم -علم الدولة- مع ما يصاحب ذلك من الموسيقى، والهتافات، نرجو التفصيل في المسألة، وهل هو من الشرك علمًا بأنه يفعل ذلك في المدارس، وهل يصح قياس العلم براية الحرب في المعركة، أفيدونا جزاكم الله خيرًا؟
الجواب:
الذي يظهر لنا أن هذا لا يجوز، وأنه تشبه بأعداء الله، القيام للعلم، وإنشاد القصائد، أو ضرب الموسيقى، كل ذلك من التشبه بأعداء الله، ولا يجوز.

فضیلۃ الباحث فیض اللہ ناصر حفظہ اللہ

شیخ بن باز رحمہ اللہ نے الیوم الوطنی منانے کو بھی التشبہ بأعدآء اللہ قرار دیا ہے۔

فضیلۃ العالم فہد انصاری حفظہ اللہ

نحترم رأيه و لكن التشبه أمر فيه شيء كثير من الإبهام و الالتباس و يصعب تعيينه والوطن ليس مما يُعبد حتى يعد القيام له قياماً محرماً

فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ

قد يكون الشيخ قد اعتبره تشبهاً بالكفار لأن مبتكريه هم الكفار أنفسهم، والمسلمون قد اتبعوه تقليداً لهم.

فضیلۃ الباحث فیض اللہ ناصر حفظہ اللہ

لعله اعتبار ظني يحتاج للقطع به إلى دليل
و هل كل ما يتشبه به حرام؟ يحتاج أيضاً إلى دليل

فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ

کسی کے لیے تعظیما کھڑے ہونے کی مذموم صورت
کسی بڑے اور معزز و اشراف کے بیٹھنے کی موجودگی میں لوگوں کا کھڑے رہنا یہ مذموم عمل ہے۔
دلیل:

عَنْ جَابِرٍ، قَالَ: اشْتَكَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّيْنَا وَرَاءَهُ وَهُوَ قَاعِدٌ، وَأَبُو بَكْرٍ يُسْمِعُ النَّاسَ تَكْبِيرَهُ، فَالْتَفَتَ إِلَيْنَا فَرَآنَا قِيَامًا، فَأَشَارَ إِلَيْنَا فَقَعَدْنَا فَصَلَّيْنَا بِصَلَاتِهِ قُعُودًا فَلَمَّا سَلَّمَ قَالَ: «إِنْ كِدْتُمْ آنِفًا لَتَفْعَلُونَ فِعْلَ فَارِسَ وَالرُّومِ يَقُومُونَ عَلَى مُلُوكِهِمْ، وَهُمْ قُعُودٌ فَلَا تَفْعَلُوا ائْتَمُّوا بِأَئِمَّتِكُمْ إِنْ صَلَّى قَائِمًا فَصَلُّوا قِيَامًا وَإِنْ صَلَّى قَاعِدًا فَصَلُّوا قُعُودًا

سیدنا جابر رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی بیماری میں ہم نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے پیچھے اس طرح نماز ادا کی کہ آپ صلی الله علیہ وسلم بیٹھے تھے اور سیدنا ابوبکر رضی الله عنہ لوگوں کو آپ صلی الله علیہ وسلم کی تکبیر سنا رہے تھے آپ صلی الله علیہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے تو ہم کو حالت قیام میں دیکھا آپ صلی الله علیہ وسلم نے ہمیں اشارہ فرمایا تو ہم بیٹھ گئے اور ہم نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی نماز کے ساتھ بیٹھ کر نماز ادا کی جب سلام پھیرا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا :تم نے اس وقت وہ کام کیا جو فارسی اور رومی کرتے ہیں کہ وہ اپنے بادشاہوں کے سامنے کھڑے ہوتے ہیں اور وہ بیٹھا ہوتا ہے ایسا نہ کرو اپنے ائمہ کی اقتداء کرو اگر وہ کھڑے ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز ادا کرو اور اگر وہ بیٹھ کر نماز ادا کرے تو تم بھی بیٹھ کر نماز ادا کرو ۔
[صحیح مسلم كتاب الصلاةبَابُ ائْتِمَامِ الْمَأْمُومِ بِالْإِمَامِ، سنن نسائی: 1201، سنن ابن ماجہ: 1240 ،الأدب المفرد للبخاری: 948]
دوسرے طریق سے روایت اس طرح سے ہیں:

إذا صلی الإمام جالسا فصلوا جلوسا وإذا صلی الإمام قائما فصلوا قیاما ولا تفعلوا کما یفعل أهل فارس بعظمائها

جب جب امام بیٹھ کر نماز پڑھ رہا ہو تو تم بھی بیٹھ کر نماز پڑھو اور جب امام کھڑا ہو کر نماز پڑھے تو تم بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھو اور تم ایسا مت کرو جیسا کہ اہل فارس اپنے بڑوں کے ساتھ کرتے ہیں (یعنی وہ بیٹھے ہوتے ہیں اور لوگ ان کی تعظیم میں کھڑے رہتے ہیں۔) [سنن ابو داود : 602]
حافظ ابن رجب نے کہا:

ﻭﻣﻨﻬﺎ: ﺃﻧﻪ ﺟﻌﻞ اﻟﻘﻴﺎﻡ ﺧﻠﻒ اﻹﻣﺎﻡ اﻟﺠﺎﻟﺲ ﻣﻦ ﺟﻨﺲ ﻓﻌﻞ ﻓﺎﺭﺱ ﻭاﻟﺮﻭﻡ ﺑﻌﻈﻤﺎﺋﻬﺎ، ﺣﻴﺚ ﻳﻘﻮﻣﻮﻥ ﻭﻣﻠﻮﻛﻬﻢ ﺟﻠﻮﺱ، ﻭﺷﺮﻳﻌﺘﻨﺎ ﺟﺎءﺕ ﺑﺨﻼﻑ ﺫﻟﻚ، ﻛﻤﺎ ﻗﺎﻝ – ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: ((ﻣﻦ اﺣﺐ ﺃﻥ ﻳﺘﻤﺜﻞ ﻟﻪ اﻟﺮﺟﺎﻝ ﻗﻴﺎﻣﺎ ﻓﻠﻴﺘﺒﻮﺃ ﻣﻘﻌﺪﻩ ﻣﻦ اﻟﻨﺎﺭ))
[فتح الباری لابن رجب: 6/ 158]

شرح سنن ابن ماجہ میں ہے:

ﻭﻓﻲ ﻗﻮﻟﻪ ﺳﺮﻩ ﺇﺷﺎﺭﺓ اﻟﻰ اﻥ اﻟﻤﻌﻈﻢ ﻟﻪ ﺇﺫا ﻛﺎﻥ ﺃﻣﺮ ﺑﺬﻟﻚ ﺃﻭ ﻳﻌﺠﺒﻪ ﺫﻟﻚ ﻓﻠﻪ ﺫﻟﻚ اﻟﻮﻋﻴﺪ ﻭاﻥ ﻛﺎﻥ ﻟﻠﺘﺄﺩﻳﺐ ﻟﻬﻢ ﺃﻭ ﺑﻼ اﺭاﺩﺗﻪ ﻓﻠﻴﺲ ﻫﻮ ﺩاﺧﻼ ﻓﻲ ﻫﺬا اﻟﻮﻋﻴﺪ
[شرح سنن ابن ماجہ للسوطي:ص:272]

علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ قیام کے فرض ہونے کے باوجود اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو قیام سے منع فرمادیا ، حالانکہ یہ بالکل واضح بات ہے کہ امام کے پیچھے مصلیین کا قیام اللہ کے لیے ہوتا ہے نہ کہ امام کے لیے لیکن اس کی ظاہری صورت کیونکہ فارس اور روم کے مشرکین سے میل کھاتی ہے ، اس لیے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس ظاہری مشابہت کے اختیار سے بھی منع فرمادیا۔ اس سے اس معاملہ میں نہی کی شدت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
[فتاوی ثنائیہ جلد : 2]
کسی کی آمد و تشریف لانے پر کھڑے ہو جانا:

حَدَّثَنَا آدَمُ قَالَ: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، وَحَدَّثَنَا حَجَّاجٌ قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادٌ قَالَ: حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ الشَّهِيدِ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا مِجْلَزٍ يَقُولُ: إِنَّ مُعَاوِيَةَ خَرَجَ، وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَامِرٍ وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ الزُّبَيْرِ قُعُودٌ، فَقَامَ ابْنُ عَامِرٍ، وَقَعَدَ ابْنُ الزُّبَيْرِ، وَكَانَ أَرْزَنَهُمَا، قَالَ مُعَاوِيَةُ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ سَرَّهُ أَنْ يَمْثُلَ لَهُ عِبَادُ اللَّهِ قِيَامًا، فَلْيَتَبَوَّأْ بَيْتًا مِنَ النَّارِ

أبو مجلز رحمه الله بیان کرتے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی الله عنہ باہر تشریف لائے تو عبدالله بن عامر اور عبدالله بن زبیر بیٹھے تھے۔ ابن عامر انہیں دیکھ کر تعظیما کھڑے ہوگئے اور ابن زبیر بیٹھے رہے اور ان دونوں میں سے وہ( ابن عامر) زیاد باوقار تھے۔ سیدنا معاویہ رضی الله عنہ نے( ابن عامر سے کہا کہ بیٹھ جائیے میں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا [مسند أبی داود الطیالسی: 1053] جس شخص کو یہ بات پسند ہو کہ لوگ اس کے لیے کھڑے ہوں وہ اپنا گھر آگ میں بنا لے۔

[الأدب المفرد للبخارى: 977 ﺑﺎﺏ ﻗﻴﺎﻡ اﻟﺮﺟﻞ ﻟﻠﺮﺟﻞ ﺗﻌﻈﻴﻤﺎ،سنن أبو داود: 5229، سنن ترمذی: 2755، ﺑﺎﺏ ﻣﺎ ﺟﺎء ﻓﻲ ﻛﺮاﻫﻴﺔ ﻗﻴﺎﻡ اﻟﺮﺟﻞ ﻟﻠﺮﺟﻞمساوئ الأخلاق للخرائطي: 784 ،785 ،786 ،787 ﺑﺎﺏ ﻓﻴﻤﺎ ﻳﻜﺮﻩ ﻟﻠﻤﺮء ﺃﻥ ﻳﻤﺜﻞ ﻟﻪ اﻟﺮﺟﺎﻝ ﻗﻴﺎﻣﺎ، المدخل إلى السنن الكبرى للبيهقى :720 ﺑﺎﺏ ﻣﻦ ﻛﺮﻩ ﺃﻥ ﻳﻘﺎﻡ ﻋﻠﻰ ﻭﺟﻪ اﻟﺘﻌﻈﻴﻢ ﻣﺨﺎﻓﺔ اﻟﻜﺒﺮ،الجعديات/ مسند علي بن الجعد: 1482، مصنف ابن أبي شيبة :25582 سنده صحيح]
تنبیہ: ترجمہ میں بریکٹ کے الفاظ مسند أبی داود الطیالسی کے ہیں
[مسند أحمد: 16830سنده صحيح ] کے الفاظ ہیں:
ﻓﻘﺎﻡ اﺑﻦ ﻋﺎﻣﺮ، ﻭﻟﻢ ﻳﻘﻢ اﺑﻦ اﻟﺰﺑﻴﺮ
پس ابن عامر کھڑے ہوئے اور ابن زبیر کھڑے نہیں ہوے
یہ حدیث ایک اور صحیح السند طریق سے مسند أحمد بن حنبل: 16845 پر موجود ہے اور دیکھیے مسند أحمد بن حنبل: 16918 سنده صحيح
اس حدیث کا معنی و مراد اہل علم سے:
مسند أحمد بن حنبل کی 16830 نمبر حدیث کی تعلیق ملاحظہ فرمائیں:

ﻗﻮﻟﻪ: “ﻗﻴﺎﻣﺎ” ﻣﺼﺪﺭ ﻣﻦ ﻏﻴﺮ ﻟﻔﻆ اﻟﻔﻌﻞ، ﺃﻱ: ﻣﻦ ﺃﺣﺐ ﺃﻥ ﻳﻘﻮﻡ ﺑﻴﻦ ﻳﺪﻳﻪ ﺃﻭ ﻋﻠﻰ ﺭﺃﺳﻪ ﺃﺣﺪ ﻟﻠﺘﻌﻈﻴﻢ. ﻗﻴﻞ: ﻫﻮ ﻧﻬﻲ ﻋﻦ اﻟﺴﺮﻭﺭ ﺑﺎﻟﻘﻴﺎﻡ، ﻻ ﻋﻦ ﻧﻔﺲ اﻟﻘﻴﺎﻡ ﺇﻛﺮاﻣﺎ ﻟﻠﺪاﺧﻞ. ﻭﻻ ﻳﺨﻔﻰ ﺃﻥ اﻋﺘﻴﺎﺩﻫﻢ اﻟﻘﻴﺎﻡ ﻟﻹﻛﺮاﻡ ﻳﺘﺮﺗﺐ ﻋﻠﻴﻪ ﻋﺎﺩﺓ ﻣﺤﺒﺘﻪ، ﻓﺈﻥ اﻹﻛﺮاﻡ ﻣﺤﺒﻮﺏ ﻃﺒﻌﺎ، ﻓﻤﺎ ﻭﺿﻌﻮﻩ ﻃﺮﻳﻘﺎ ﺇﻟﻴﻪ ﻳﺼﻴﺮ ﻣﺤﺒﻮﺑﺎ، ﻓﺈﺫا ﺟﺎء اﻟﻨﻬﻲ ﻋﻨﻪ ﻓﺎﻟﻮﺟﻪ ﺗﺮﻛﻪ ﺭﺃﺳﺎ، ﻟﺌﻼ ﻳﺼﻴﺮ ﻣﺤﺒﻮﺑﺎ ﻭﻫﻮ ﻣﻨﻬﻲ ﻋﻨﻪ. ﻭﻗﺎﻝ اﺑﻦ ﻗﺘﻴﺒﺔ: ﻣﻌﻨﺎﻩ، ﻣﻦ ﺃﺭاﺩ ﺃﻥ ﻳﻘﻮﻡ اﻟﺮﺟﺎﻝ ﻋﻠﻰ ﺭﺃﺳﻪ ﻛﻤﺎ ﻳﻘﻮﻡ ﺑﻴﻦ ﻳﺪﻱ ﻣﻠﻮﻙ اﻷﻋﺎﺟﻢ، ﻭﻟﻴﺲ اﻟﻤﺮاﺩ ﺑﻪ ﻧﻬﻲ اﻟﺮﺟﻞ ﻋﻦ اﻟﻘﻴﺎﻡ ﻷﺧﻴﻪ ﺇﺫا ﺳﻠﻢ ﻋﻠﻴﻪ. اﻧﺘﻬﻰ.
ﻗﺎﻝ اﺑﻦ اﻟﻘﻴﻢ: ﺣﻤﻞ ﺃﺣﺎﺩﻳﺚ اﻟﻨﻬﻲ ﻋﻦ اﻟﻘﻴﺎﻡ ﻋﻠﻰ اﻟﻘﻴﺎﻡ ﻋﻠﻰ اﻟﺮﺟﻞ ﻣﻤﺘﻨﻊ، ﻭﺇﻥ ﺳﻴﺎﻗﻬﺎ ﻳﺪﻝ ﻋﻠﻰ ﺧﻼﻓﻪ، ﻭﺃﻧﻪ ﻧﻬﻲ ﻋﻦ اﻟﻘﻴﺎﻡ ﻟﻪ ﺇﺫا ﺧﺮﺝ ﻋﻠﻴﻬﻢ، ﻭﻷﻥ اﻟﻌﺮﺏ ﻟﻢ ﻳﻜﻮﻧﻮا ﻳﻌﺮﻓﻮﻥ. ﻫﺬا، ﻭﺇﻧﻤﺎ ﻫﻮ ﻣﻦ ﻓﻌﻞ ﻓﺎﺭﺱ ﻭاﻟﺮﻭﻡ ﻛﻤﺎ ﻓﻲ ﺣﺪﻳﺚ ﺟﺎﺑﺮ ﻋﻨﺪ ﻣﺴﻠﻢ (413) ﺃﻧﻬﻢ ﻟﻤﺎ ﺻﻠﻮا ﻗﻌﻮﺩا ﺧﻠﻔﻪ ﻗﺎﻝ: “ﺇﻥ ﻛﺪﺗﻢ ﻟﺘﻔﻌﻠﻮﻥ ﻓﻌﻞ ﻓﺎﺭﺱ ﻭاﻟﺮﻭﻡ، ﻳﻘﻮﻣﻮﻥ ﻋﻠﻰ ﻣﻠﻮﻛﻬﻢ، ﻭﻫﻢ ﻗﻌﻮﺩ، ﻓﻼ ﺗﻔﻌﻠﻮا”. ﻭﻷﻥ ﻫﺬا ﻻ ﻳﻘﺎﻝ ﻟﻪ ﻗﻴﺎﻡ ﻟﻪ، ﻭﺇﻧﻤﺎ ﻗﻴﺎﻡ ﻋﻠﻴﻪ، ﻭﻓﺮﻕ ﺑﻴﻦ اﻟﻘﻴﺎﻡ ﻟﻠﺸﺨﺺ اﻟﻤﻨﻬﻲ ﻋﻨﻪ، ﻭاﻟﻘﻴﺎﻡ ﻋﻠﻴﻪ اﻟﺸﺒﻴﻪ ﻟﻔﻌﻞ ﻓﺎﺭﺱ ﻭاﻟﺮﻭﻡ، ﻭاﻟﻘﻴﺎﻡ ﺇﻟﻴﻪ ﻋﻨﺪ ﻗﺪﻭﻣﻪ اﻟﺬﻱ ﻫﻮ ﺳﻨﺔ اﻟﻌﺮﺏ، ﻭﺃﺣﺎﺩﻳﺚ اﻟﺠﻮاﺯ ﺗﺪﻝ ﻋﻠﻴﻪ ﻓﻘﻂ
[موسوعہ حدیثیہ/ مسند أحمد بن حنبل :28/ 42]

امام بیھقی کہتے ہیں:

ﻭﺃﻣﺎ ﺣﺪﻳﺚ ﺃﻧﺲ ﺑﻦ ﻣﺎﻟﻚ ﻓﻲ ﻛﺮاﻫﻴﺔ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻗﻴﺎﻣﻬﻢ ﻟﻪ، ﻭﺣﺪﻳﺚ ﺃﺑﻲ ﺃﻣﺎﻣﺔ ﻓﻲ ﺫﻟﻚ ﻭﻗﻮﻟﻪ: ﻻ ﺗﻘﻮﻣﻮا ﻛﻤﺎ ﺗﻘﻮﻡ اﻷﻋﺎﺟﻢ ﻳﻌﻈﻢ ﺑﻌﻀﻬﻢ ﺑﻌﻀﺎ . ﻓﺈﻧﻤﺎ ﻫﻲ ﻭاﻝﻟﻪ ﺃﻋﻠﻢ ﺇﺫا ﻛﺎﻥ اﻟﻘﻴﺎﻡ ﻋﻠﻰ ﻭﺟﻪ اﻟﺘﻌﻈﻴﻢ ﻻ اﻟﺘﻜﺮﻳﻢ، ﻣﺨﺎﻓﺔ اﻟﻜﺒﺮ ﻭاﻟﺬﻱ ﺭﻭﻱ ﻋﻦ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﻋﻦ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ: ﻣﻦ ﺃﺣﺐ ﺃﻥ ﻳﻤﺜﻞ ﻟﻪ اﻟﺮﺟﺎﻝ ﻗﻴﺎﻣﺎ ﻓﻠﻴﺘﺒﻮﺃ ﻣﻘﻌﺪﻩ ﻣﻦ اﻟﻨﺎﺭ ﻓﺈﻧﻤﺎ ﻫﻮ ﺃﻥ ﻳﺄﻣﺮﻫﻢ ﺑﺬﻟﻚ، ﻭﻳﻠﺰﻣﻪ ﺇﻳﺎﻫﻢ ﻋﻠﻰ ﻣﺬﻫﺐ اﻟﻜﺒﺮ ﻭاﻟﻨﺨﻮﺓ، ﻓﻴﻜﻮﻥ ﻫﻮ ﻗﺎﻋﺪا ﻭﻫﻢ ﻣﻨﺘﺼﺒﻮﻥ ﺑﻴﻦ ﻳﺪﻳﻪ ﻭاﻟﻠﻪ ﺃﻋﻠﻢ.
[الآداب للبيهقي: 245]

امام بغوی نے کہا:

ﻓﻤﻌﻨﺎﻩ ﺃﻥ ﻳﺄﻣﺮﻫﻢ ﺑﺬﻟﻚ ﻋﻠﻰ ﻣﺬﻫﺐ اﻟﻜﺒﺮ ﻭاﻟﻨﺨﻮﺓ
[ شرح السنة للبغوي :11/ 93]
ﻗﺎﻝ اﻟﺰﻣﺨﺸﺮﻱ: ﺃﻣﺮ ﺑﻤﻌﻨﻰ اﻟﺨﺒﺮ ﻛﺄﻧﻪ ﻗﺎﻝ ﻣﻦ ﺃﺣﺐ ﺫﻟﻚ ﻭﺟﺐ ﻟﻪ ﺃﻥ ﻳﻨﺰﻝ ﻣﻨﺰﻟﺘﻪ ﻣﻦ اﻟﻨﺎﺭ ﻭﺣﻖ ﻟﻪ ﺫﻟﻚ اﻩ. ﻭﺫﻟﻚ ﻷﻥ ﺫﻟﻚ ﺇﻧﻤﺎ ﻳﻨﺸﺄ ﻋﻦ ﺗﻌﻈﻴﻢ اﻟﻤﺮء ﺑﻨﻔﺴﻪ ﻭاﻋﺘﻘﺎﺩ اﻟﻜﻤﺎﻝ ﻭﺫﻟﻚ ﻋﺠﺐ ﻭﺗﻜﺒﺮ ﻭﺟﻬﻞ ﻭﻏﺮﻭﺭ ﻭﻻ ﻳﻨﺎﻗﻀﻪ ﺧﻴﺮ ﻗﻮﻣﻮا ﺇﻟﻰ ﺳﻴﺪﻛﻢ ﻷﻥ ﺳﻌﺪا ﻟﻢ ﻳﺤﺐ ﺫﻟﻚ ﻭاﻟﻮﻋﻴﺪ ﺇﻧﻤﺎ ﻫﻮ ﻟﻤﻦ ﺃﺣﺒﻪ ﻗﺎﻝ اﻟﻨﻮﻭﻱ: ﻭﻣﻌﻨﻰ اﻟﺤﺪﻳﺚ ﺯﺟﺮ اﻟﻤﻜﻠﻒ ﺃﻥ ﻳﺤﺐ ﻗﻴﺎﻡ اﻟﻨﺎﺱ ﻟﻪ ﻭﻻ ﺗﻌﺮﺽ ﻓﻴﻪ ﻟﻠﻘﻴﺎﻡ ﺑﻨﻬﻲ ﻭﻻ ﺑﻐﻴﺮﻩ ﻭاﻟﻤﻨﻬﻲ ﻋﻨﻪ ﻣﺤﺒﺔ اﻟﻘﻴﺎﻡ ﻟﻪ ﻓﻠﻮ ﻟﻢ ﻳﺨﻄﺮ ﺑﺒﺎﻟﻪ ﻓﻘﺎﻣﻮا ﻟﻪ ﺃﻭ ﻟﻢ ﻳﻘﻮﻣﻮا ﻓﻼ ﻟﻮﻡ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺇﻥ ﺃﺣﺒﻪ ﺃﺛﻢ ﻗﺎﻣﻮا ﺃﻭ ﻻ ﻓﻼ ﻳﺼﺢ اﻻﺣﺘﺠﺎﺝ ﺑﻪ ﻟﺘﺮﻙ اﻟﻘﻴﺎﻡ ﻭﻻ ﻳﻨﺎﻗﻀﻪ ﻧﺪﺏ اﻟﻘﻴﺎﻡ ﻷﻫﻞ اﻟﻜﻤﺎﻝ ﻭﻧﺤﻮﻫﻢ
[فيض القدير : 6/ 31]
ﻓﺈﻥ ﻇﻦ ﻇﺎﻥ ﺃﻥ ﺣﺪﻳﺚ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ ﺑﻦ ﺑﺮﻳﺪﻩ ﺃﻥ ﺃﺑﺎﻩ ﺩﺧﻞ ﻋﻠﻰ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﻓﺄﺧﺒﺮﺓ ﺃﻥ اﻟﻨﺒﻰ ﻋﻠﻴﻪ اﻟﺴﻼﻡ ﻗﺎﻝ: (ﻣﻦ ﺃﺣﺐ ﺃﻥ ﻳﺘﻤﺜﻞ ﻟﻪ اﻟﺮﺟﺎﻝ ﻗﻴﺎﻣﺎ ﻭﺟﺒﺖ ﻟﻪ اﻟﻨﺎﺭ) ﺣﺠﺔ ﻟﻤﻦ ﺃﻧﻜﺮ اﻟﻘﻴﺎﻡ ﻟﻠﺴﺎﺩﺓ، ﻓﻘﺪ ﻇﻦ ﻏﻴﺮ اﻟﺼﻮاﺏ، ﻭﺫﻟﻚ ﺃﻥ ﻫﺬا اﻟﺨﺒﺮ ﺇﻧﻤﺎ ﻳﻨﺒﻰء ﻋﻦ ﻧﻬﻰ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﻟﻠﺬﻯ ﻳﻘﺎﻡ ﻟﻪ اﻟﺴﺮﻭﺭ ﺑﻤﺎ ﻳﻔﻌﻞ ﻟﻪ ﻣﻦ ﺫﻟﻚ ﻻ ﻋﻦ ﻧﻬﻴﻪ اﻟﻘﺎﺋﻢ ﻋﻦ اﻟﻘﻴﺎﻡ، ﻭﻗﺪ ﺭﻭﻯ ﺣﻤﺎﺩ ﺑﻦ ﺯﻳﺪ، ﻋﻦ اﺑﻦ ﻋﻮﻥ ﻗﺎﻝ: ﻛﺎﻥ اﻟﻤﻬﻠﺐ ﺑﻦ ﺃﺑﻰ ﺻﻔﺮﺓ ﻳﻤﺮ ﺑﻨﺎ ﻭﻧﺤﻦ ﻏﻠﻤﺎﻥ ﻓﻰ اﻟﻜﺘﺎﺏ ﻓﻨﻘﻮﻡ ﻳﻮﻗﻮﻡ اﻟﻨﺎﺱ ﺳﻤﺎﻃﻴﻦ. ﻭﻗﺎﻝ اﺑﻦ ﻗﺘﻴﺒﻪ: ﻣﻌﻨﻰ ﺣﺪﻳﺚ ﻣﻌﺎﻭﻳﺔ ﻭﺑﺮﻳﺪﺓ ﻣﻦ ﺃﺭاﺩ ﺃﻥ ﻳﻘﻮﻡ اﻟﺮﺟﺎﻝ ﻋﻠﻰ ﺭﺃﺳﻪ ﻛﻤﺎ ﻳﻘﺎﻡ ﺑﻴﻦ ﻳﺪﻯ اﻟﻤﻠﻮﻙ ﻭاﻷﻣﺮاء، ﻭﻟﻴﺲ ﻗﻴﺎﻡ اﻟﺮﺟﻞ ﻷﺧﻴﻪ ﺇﺫا ﺳﻠﻢ ﻋﻠﻴﻪ ﻣﻦ ﻫﺬا ﻓﻰ ﺷﻰء، ﻟﻘﻮﻟﻪ: (ﻣﻦ ﺳﺮﻩ ﺃﻥ ﻳﻘﻮﻡ ﻟﻪ اﻟﺮﺟﺎﻝ ﺻﻔﻮﻓﻨﺎ ﻭاﻟﺼﺎﻓﻦ: ﻫﻮ اﻟﺬﻯ ﺃﻃﺎﻝ اﻟﻘﻴﺎﻡﻓﺎﺣﺘﺎﺝ ﻟﻄﻮﻝ ﻗﻴﺎﻣﻪ ﺃﻥ ﻳﺮﻓﻊ اﺣﺪﻯ ﺭﺟﻠﻴﻪ ﻟﻴﺴﺘﺮﻳﺢ، ﻭﻛﺬﻟﻚ اﻟﺼﺎﻓﻦ ﻣﻦ اﻟﺪﻭاﺏ. ﻭﺭﻭﻯ اﻟﻨﺴﺎﺋﻰ: ﺣﺪﻳﺜﻨﺎ ﺯﻛﺮﻳﺎ ﺑﻦ ﻳﺤﻰ، ﺣﺪﺛﻨﻰ اﺳﺤﺎﻕ، ﻋﻦ اﻟﻨﻀﺮ ﺑﻦ ﺷﻤﻴﻞ، ﺣﺪﻳﺜﻨﺎ ﺇﺳﺮاﺋﻴﻞ، ﻋﻦ ﻣﻴﺴﺮﺓ ﺑﻦ ﺣﺒﻴﺐ، ﻋﻦ اﻟﻤﻨﻬﺎﻝ ﻗﺎﻝ: ﺣﺪﺛﺘﻨﻰ ﻋﺎﺋﺸﺔ ﺑﻨﺖ ﻃﻠﺤﺔ، ﻋﻦ ﻋﺎﺋﺸﺔ ﺃﻡ اﻟﻤﺆﻣﻨﻴﻦ ﻗﺎﻟﺖ: (ﻛﺎﻥ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺇﺫا ﺭﺃﻯ ﻓﺎﻃﻤﺔ اﺑﻨﺘﻪ ﻗﺪ ﺃﻗﺒﻠﺖ ﺭﺣﺐ ﺑﻬﺎ، ﺛﻢ ﻗﺎﻡ ﺇﻟﻴﻬﺎ ﻓﻘﺒﻠﻬﺎ، ﺛﻢ ﺃﺧﺬ ﺑﻴﺪﻫﺎ ﺣﺘﻰ ﻳﺠﻠﺴﻬﺎ ﻓﻰ ﻣﻜﺎﻧﻪ
[شرح صحیح البخاری لابن بطال: 9/ 43، 44]

تنبیہ:
حدیث أبی سعید الخدری میں جو الفاظ ہیں ﻗﻮﻣﻮا ﺇﻟﻰ ﺳﻴﺪﻛﻢ
کا جواب یہ ہے کہ سعد بن معاذ رضی الله عنہ زخمی تھے ( دیکھیے صحیح مسلم :2208 ﺑﺎﺏ ﻟﻜﻞ ﺩاء ﺩﻭاء ﻭاﺳﺘﺤﺒﺎﺏ اﻟﺘﺪاﻭﻱ، سنن ترمذی:1582 مسند أحمد:14773 من طريق ليث بن سعد عن أبي الزبير ﻭﺭﻭاﻳﺘﻪ ﻋﻨﻪ ﻣﺤﻤﻮﻟﺔ ﻋﻠﻰ اﻟﺴﻤﺎﻉ) اس لیے انہیں سواری سے اتارنے کے لیے ارشاد فرمایا تھا جیسا کہ مسند أحمد بن حنبل ،صحیح ابن حبان وغیرہ میں صراحت ہے۔ ﻗﻮﻣﻮا ﺇﻟﻰ ﺳﻴﺪﻛﻢ ﻓﺄﻧﺰﻟﻮﻩ
اور حدیث عائشہ رضی الله عنہا جس میں سیدہ فاطمتہ الزہرا رضی الله عنہا اور رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے مثالی پیار کا اظہار ہے اس کا مذکورہ مسئلہ و قیام سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔
اب اسلام ویب سے کچھ تفصیل پیش خدمت ہے۔

قال المباركفوري في تحفة الأحوذي: أي فليتخذ لنفسه منزلا يقال تبوأ الرجل المكان إذا اتخذه مسكنا وهو أمر بمعنى الخبر أو بمعنى التهديد أو بمعنى التهكم أو دعاء على فاعل ذلك أي بوأه الله ذلك وقال الكرماني يحتمل أن يكون الأمر على حقيقته والمعنى من كذب فليأمر نفسه بالتبوأ قال الحافظ وأولها أولاها فقد رواه أحمد بإسناد صحيح عن بن عمر بلفظ بنى له بيت في النار .‏
وقد اختلف أهل العلم في قيام الرجال للرجل عند رؤيته: فجوزه بعضهم كالنووي وغيره، ‏ومنعه آخرون، ‏
قال النووي في الأذكار: وأما إكرام الداخل بالقيام، فالذي نختاره أنه مستحب لمن كان ‏فيه فضيلة ظاهرة، ويكون هذا القيام للبر والإكرام والاحترام، لا للرياء والإعظام.‏
ونقل العيني في شرح البخاري عن أبي الوليد ابن رشد أن القيام على أربعة أوجه:‏
‏ الأول: محظور، وهو أن يقع لمن يريد أن يقام إليه تكبرا وتعاظما على القائمين إليه.‏
الثاني: مكروه، وهو أن يقع لمن لا يتكبر، ولكن يخشى أن يدخله بسبب ذلك ما يحذر، ‏ولما فيه من التشبه بالجبابرة،‏
‏ والثالث: جائز، وهو أن يقع على سبيل البر لمن لا يريد ذلك، ويأمن معه التشبه ‏بالجبابرة.‏
الرابع: مندوب، وهو أن يقوم لمن قدم من سفر فرحا بقدومه ليسلم عليه، أو إلى من ‏تجددت له نعمة فيهنئه بحصولها، أو مصيبة فيعزيه بسببها. ‏وقال الغزالي: القيام على سبيل الإعظام مكروه، وعلى سبيل البر والإكرام لا يكره. وقال ‏الحافظ في الفتح: هذا تفصيل حسن، ونحن نميل إلى القول بهذا التفصيل الذي ذكره ‏الغزالي، واستحسنه الحافظ ابن حجر.‏
والله أعلم

[بحوالہ اسلام ویب]
اگر کوئی معزز شخصیت اپنے لیے تواضع وانکساری کے سبب تکریما اٹھنے کو ناپسند کرتی ہے تو احترام کا تقاضا ہے کہ محبین ایسا نہ کریں۔

ﻋﻦ ﺃﻧﺲ، ﻗﺎﻝ: ﻟﻢ ﻳﻜﻦ ﺷﺨﺺ ﺃﺣﺐ ﺇﻟﻴﻬﻢ ﻣﻦ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺱﻟﻢ، ﻭﻛﺎﻧﻮا ﺇﺫا ﺭﺃﻭﻩ ﻟﻢ ﻳﻘﻮﻣﻮا لما يعلمون ﻣﻦ ﻛﺮاﻫﻴﺘﻪ ﻟﺬﻟﻚ

امام ترمذی نے کہا:
ﻫﺬا ﺣﺪﻳﺚ ﺣﺴﻦ ﺻﺤﻴﺢ ﻏﺮﻳﺐ ﻣﻦ ﻫﺬا اﻟﻮﺟﻪ
[سنن ترمذی: 2754 ،شرح مشکل الآثار للطحاوى : 1126 وغیرہ صحيح]

امام طحاوی اس حدیث کے بعد کہتے ہیں: ﻓﻜﺎﻥ ﻣﺎ ﻓﻲ ﻫﺬا اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻗﺪ ﺩﻝ ﺃﻥ ﺃﺻﺤﺎﺏ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ وسلم ﺇﻧﻤﺎ ﻛﺎﻧﻮا ﻳﺘﺮﻛﻮﻥ اﻟﻘﻴﺎﻡ ﻟﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ لعلمهم ﺑﻜﺮاﻫﺘﻪ ﻟﺬﻟﻚ ﻣﻨﻬﻢ ﻭﻓﻲ ﺫﻟﻚ ﻣﺎ ﻗﺪ ﺩﻝ ﻋﻠﻰ ﺃﻧﻬﻢ ﻟﻮﻻ ﻛﺮاﻫﺘﻪ ﻟﺬﻟﻚ ﻣﻨﻬﻢ ﻟﻘﺎﻣﻮا ﻟﻪ ﻭﻗﺪ ﺗﻜﻮﻥ ﻛﺮاﻫﺘﻪ ﻟﺬﻟﻚ ﻣﻨﻬﻢ ﻋﻠﻰ ﻭﺟﻪ اﻟﺘﻮاﺿﻊ ﻣﻨﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻟﺬﻟﻚ; ﻻ ﻷﻧﻪ ﺣﺮاﻡ ﻋﻠﻴﻬﻢ ﺃﻥ ﻳﻔﻌﻠﻮا ﺫﻟﻚ ﻟﻪ, ﻭﻛﻴﻒ ﻳﻈﻦ ﺃﻥ ﺫﻟﻚ ﺣﺮاﻡ ﻋﻠﻴﻬﻢ ﻭﻗﺪ ﺃﻣﺮﻫﻢ ﺑﺎﻟﻘﻴﺎﻡ ﺇﻟﻰ ﺳﻌﺪ ﺑﻦ ﻣﻌﺎﺫ ﻭﻗﺎﻡ ﺑﻤﺤﻀﺮﻩ ﻃﻠﺤﺔ ﺑﻦ ﻋﺒﻴﺪ اﻟﻠﻪ ﺇﻟﻰ ﻛﻌﺐ ﺑﻦ ﻣﺎﻟﻚ ﻋﻨﺪ ﻧﺰﻭﻝ ﺗﻮﺑﺘﻪ ﻣﻬﻨﺌﺎ ﻟﻪ ﺑﺬﻟﻚ ﻓﻟﻢ ﻳﻨﻬﻪ ﻋﻨﻪ
[شرح مشكل الآثار للطحاوى: 3/ 155]

آخر پر ہم نتیجہ کے طور پر محدث البانی رحمه الله تعالى کی کتاب الضعيفة سے مفید ترین کلام نقل کرتے ہیں کہا:

ﻭﺧﻼﺻﺔ اﻟﻘﻮﻝ ﺃﻧﻪ ﻻ ﻳﻮﺟﺪ ﺩﻟﻴﻞ ﺻﺤﻴﺢ ﺻﺮﻳﺢ ﻓﻲ اﺳﺘﺤﺒﺎﺏ ﻫﺬا اﻟﻘﻴﺎﻡ، ﻭاﻟﻨﺎﺱ
ﻗﺴﻤﺎﻥ: ﻓﺎﺿﻞ ﻭﻣﻔﻀﻮﻝ، ﻓﻤﻦ ﻛﺎﻥ ﻣﻦ اﻟﻘﺴﻢ اﻷﻭﻝ ﻓﻌﻠﻴﻪ ﺃﻥ ﻳﻘﺘﺪﻱ ﺑﺎﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ
ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻓﻴﻜﺮﻩ اﻟﻘﻴﺎﻡ ﻣﻦ ﻏﻴﺮﻩ ﻟﻪ، ﻭﻣﻦ ﻛﺎﻥ ﻣﻦ اﻟﻘﺴﻢ اﻵﺧﺮ، ﻓﻌﻠﻴﻪ ﺃﻥ ﻳﻘﺘﺪﻱ
ﺑﺄﺻﺤﺎﺑﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺱﻟﻢ، ﻓﻼ ﻳﻘﻮﻡ ﻟﻢﻧ ﻛﺎﻥ ﻣﻦ اﻟﻘﺴﻢ اﻷﻭﻝ ﻓﻀﻼ ﻋﻦ ﻏﻴﺮﻩ!
ﻭﻳﻌﺠﺒﻨﻲ ﻓﻲ ﻫﺬا اﻟﺼﺪﺩ ﻣﺎ ﺫﻛﺮﻩ اﻟﺸﻴﺦ ﺟﺴﻮﺱ ﻓﻲ ﺷﺮﺣﻪ ﻋﻠﻰ ” اﻟﺸﻤﺎﺋﻞ ” ﻧﻘﻼ ﻋﻦ اﺑﻦ
ﺭﺷﺪ ﻓﻲ ” اﻟﺒﻴﺎﻥ ” ﻗﺎﻝ:
” اﻟﻘﻴﺎﻡ ﻟﻠﺮﺟﻞ ﻋﻠﻰ ﺃﺭﺑﻌﺔ ﺃﻭﺟﻪ:
1- ﻭﺟﻪ ﻳﻜﻮﻥ ﻓﻴﻪ ﻣﺤﻈﻮﺭا ﻻ ﻳﺤﻞ، ﻭﻫﻮ ﺃﻥ ﻳﻘﻮﻡ ﺇﻛﺒﺎﺭا ﻭﺗﻌﻈﻴﻤﺎ ﻭﺇﺟﻼﻻ لمن
ﻳﺤﺐ ﺃﻥ ﻳﻘﺎﻡ ﻟﻪ ﺗﻜﺒﺮا ﻭﺗﺠﺒﺮا ﻋﻠﻰ اﻟﻘﺎﺋﻤﻴﻦ ﻟﻪ.
2- ﻭﻭﺟﻪ ﻳﻜﻮﻥ ﻓﻴﻪ ﻣﻜﺮﻭﻫﺎ، ﻭﻫﻮ ﺃﻥ ﻳﻘﻮﻡ ﺇﻛﺒﺎﺭا ﻭﺗﻌﻈﻴﻤﺎ ﻭﺇﺟﻼﻻ ﻟﻤﻦ ﻻ ﻳﺤﺐ
ﺃﻥ ﻳﻘﺎﻡ ﻟﻪ، ﻭﻻ ﻳﺘﻜﺒﺮ ﻋﻠﻰ اﻟﻘﺎﺋﻤﻴﻦ ﻟﻪ، ﻓﻬﺬا ﻳﻜﺮﻩ ﻟﻠﺘﺸﺒﻪ ﺑﻔﻌﻞ اﻟﺠﺒﺎﺑﺮﺓ
ﻭﻣﺎ ﻳﺨﺸﻰ ﺃﻥ ﻳﺪﺧﻠﻪ ﻣﻦ ﺗﻐﻴﻴﺮ ﻧﻔﺲ المقوم ﻟﻪ.
3- ﻭﻭﺟﻪ ﻳﻜﻮﻥ ﻓﻴﻪ ﺟﺎﺋﺰا، ﻭﻫﻮ ﺃﻥ ﻳﻘﻮﻡ ﺗﺠﻠﺔ ﻭﺇﻛﺒﺎﺭا ﻟﻤﻦ ﻻ ﻳﺮﻳﺪ ﺫﻟﻚ،
ﻭﻻ ﻳﺸﺒﻪ ﺣﺎﻟﻪ ﺣﺎﻝ اﻟﺠﺒﺎﺑﺮﺓ، ﻭﻳﺆﻣﻦ ﺃﻥ ﺗﺘﻐﻴﺮ ﻧﻔﺲ اﻟﻢﻗﻮﻡ ﻟﻪ ﻟﺬﻟﻚ، ﻭﻫﺬﻩ ﺻﻔﺔ
ﻣﻌﺪﻭﻣﺔ ﺇﻻ ﻓﻴﻤﻦ ﻛﺎﻥ ﺑﺎﻟﻨﺒﻮﺓ ﻣﻌﺼﻮﻣﺎ.
4- ﻭﻭﺟﻪ ﻳﻜﻮﻥ ﻓﻴﻪ ﺣﺴﻨﺎ، ﻭﻫﻮ ﺃﻥ ﻳﻘﻮﻡ ﺇﻟﻰ اﻟﻘﺎﺩﻡ ﻋﻠﻴﻪ ﻣﻦ ﺳﻔﺮ ﻓﺮﺣﺎ ﺑﻘﺪﻭﻣﻪ
يسلم ﻋﻠﻴﻪ، ﺃﻭاﻟﻘﺎﺩﻡ ﻋﻠﻴﻪ المصاب ﺑﻤﺼﻴﺒﺔ ﻟﻴﻌﺰﻳﻪ ﺑﻤﺼﺎﺑﻪ، ﻭﻣﺎ ﺃﺷﺒﻪ ﺫﻟﻚ،
ﻓﻌﻠﻰ ﻫﺬا ﻳﺘﺨﺮﺝ ﻣﺎ ﻭﺭﺩ ﻓﻲ ﻫﺬا اﻟﺒﺎﺏ ﻣﻦ اﻵﺛﺎﺭ، ﻭﻻ ﻳﺘﻌﺎﺭﺽ ﺷﻲء ﻣﻨﻬﺎ “.
ﻭﻟﻘﺪ ﺻﺪﻕ ﺭﺣﻤﻪ اﻟﻠﻪ ﻭﺃﺣﺴﻦ ﻣﺜﻮاﻩ
[سلسلة الأحاديث الضعيفة للألباني: 3/ 637، 638 تحت حدیث: 1443]

مزید قیام کی جائز و ممنوع حالت کے جاننے کے لیے تفصیل سے دیکھیے شرح ریاض الصالحین لابن عثيمين: 1/ 155 تا 160
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ