قاضی احتشام الدین مراد آبادی
[المتوفی 1330ھ/ ء1920]
محقق کبیر، محدث وفقیہ، حضرت قاضی احتشام الداین مراد آبادی رحمۃاللہ علیہ اپنے عصرکےکامل الفن علماءمیں سےتھے۔ ولادت باسعادت مراد آباد میں ہوئی اور ابتدائی تعلیم بھی مرادآباد میں حاصل کی۔ کتب درسیہ حضرت قاضی بشیرالدین محدث قنوجی سے مرادآباد میں اور علامہ سید امیر حسن سہسوانی سے میرٹھ میں پڑھیں۔ اس کےبعددہلی جاکر شیخ الکل سیدنذیرحسین محدث بہاری دہلوی رحمتہ اللہ علیہ سےحدیث پڑھی اور سند واجازہ سے مشرف ہو ئے۔ اپنے عہد کے فعال علماء میں شمار ہوتاتھا۔ تکمیل علوم دین کے بعد اعلائےکلمتہ اللہ کےلیےہمہ تن مصروف ہوگئے۔ مرادآباد میں موصوف کی ذات سے تحریک عمل بالحدیث کو بڑی تقویت ملی۔
قاضی احتشام الدین کی ذاتِ گرامی میں مختلف صفاتِ حسنہ جمع ہوگئےتھے، وہ پاکیزہ اطوارکے حامل، خوش خصال بزرگ تھے۔ انہو ں نےدرس و تدریس کا سلسلہ بھی شروع کیااور وعظ وارشاد کی مسند بھی آراستہ کی۔ عوام الناس نے ان کے پندونصائح سے بہت استفادہ کیا۔ مرادآباد کے مشہور عالم دین حافظ عزیزالدین مرادآبادی(1)صاحب اکمل البیانٗ المتوفی1367ھ کو بھی قاضی صاحب سے شرف تلمند حاصل تھا۔
قاضی صاحب صاحبِ تصنیف تھے، مفسر اور مترجم تھے۔ ان کی تصانیف کی تفصیل درج ذیل ہے:
1۔اکسیرال عظم تفسیر قرآن پاک:
یہ قرآن پاک کی ضیخم اردو تفسیرہے، اس کی پہلی جلد ُمطبع احتشامیہٗ مرادآباد سے1303ھ/ 1885ء میں منصہ شہود پر آئی اوراس کی 12ویں جلد 1316ھ/ 1998ء میں طبع ہوئی جوکہ سورہ طہٰ پر ختم ہو ئی ہے۔ اس کے بقیہ حصوں سے متعلق آگاہی نہیں ہو ئی، غالبا یہ تفسیر نامکمل رہی ہوگی۔ قرآن حکیم کے اردو تراجمٗ کی لائق تکریم مصنفہ رقمطرازہیں:
ُ ُکہتے ہیں کہ اس کا دوسرا ایڈیشن نو جلدوں پر مشتمل لکھنؤ کے نول کشور پریس سے1313ھ مطابق 1895ء میں طبع ہوا۔ ترجمہ سلیس اور پر اثر ہے۔ سورہ فاتحہ کا ترجمہ درج ذیل ہے:
حمدکامستحق فقط اللہ ہے جو تمام عالموں کا پرور دگار ہے۔ بڑا مہربان رحم کرنے والا ہے، مالک ہے قیامت کے دن کا،تجھی کو پوجتے ہیں ہم اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں ہم۔ دکھا ہم کوراستہ سیدھا، راستہ ان کا جن پرتونےاپناانعام کیا،نہ ان کاجن پر تیرا غضب ہوا،اورنہ گمراہوں کا۔ٗٗ
2۔اختیارالحق:
شیخ الکل سید نذیر حسین محدث دہلوی کی مشہور زمانہ تصنیف معیارالحق، کی تائیداور مولاناارشاد
حسین رام پوری (2) کی ُ انتصارالحق کی تردید میں لکھی گئی ہے، جس کا مبحث اجتہادو تقلیدہے۔ اپنے موضوع پر نہایت جامع کتاب ہے۔ 1296ھ میں مطبع العلوم سے طبع ہوئی۔
3۔نصحیتہ الشیعہ:
رد شیعیت میں یہ نہایت اہم اور مشہور معروف تصنیف ہے،مولانا عبدالشکور فاروقی
لکھنوی (3) اس کتاب سے متعلق ر قمطراز ہیں:
” کتاب نصحیتہ الشیعہ (جس کو جناب مو لوی احتشام الدین صاحب مراد آبادی ر حمتہ اللہ علیہ نے تصنیف فرمایا اور افسوس ہے کہ ان کی عمر نے وفا نہ کی اور صر ف تین جلدیں اس کتا ب کی مکمل ہو ئیں) ایک عجیب کتاب ہے۔ استدال کی متانت، عبارت کی صفائی اور سلا مت طرز بیان اور سلیقہ فہم کی بفاست غرض ہر حیثیت سے یہ کتاب اہل علم کے نزدیک قا بل پسند اور اپنے مصنف کی قابلیت اور عالی دماغ کی شاہد عادل ہے ۔ میرے خیا ل میں اردو زبان میں اس سے پہلے شاید ان خو بیوں کے ساتھ اس مبحث میں کوئی کتاب نہ لکھی گئی ہو گی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ مصنف کو جزائے خیر دے اور اس بہتر ین تصنیف کے صلہ میں ان کو اپنی رضا مندی کی گراں بہا خلعت عطا فرمائے۔آمین”
[نصیحتہ الشیعہ:1۔2]
یہ کتاب سب سے پہلے مولانا عبدالشکور فاروقی نے طبع کروائی تھی بعد ازاں مکتبہ صد یقیہ ملتان سے بھی طبع ہوئی۔
4۔ منتخب التواریخ:
عہد اکبری کے نامور مورخ ملا عبدالقادر بدایونی کی مشہور ومعروف کتاب کا اردو تر جمہ جوکہ نو لکشور پر یس لکھنؤ سے1879ء میں طبع ہوا۔
5۔تائیدالسلام:
سر سید احمد خان کی تفسیر پرمحاکمہ ہے، تعداد صفات26۔افضل المطابع مراد آباد سے طبع ہوئی۔
6۔ تر جمہ فتاویٰ عالمگیری:
صرف جلد اول کا ترجمہ ہے،386 صفحات پر مشتمل ہے۔ نولکشور پریس لکھنؤ سے 1917ءمیں طبع ہوئی۔
7۔ھدیت الرافعین:
مطبع نظامی کا نپو ر سے1965ء میں طبع ہوئی۔
8۔ضمیمہ امداد المساجد:
اعظم پر یس مراد آباد سے 1879ءمیں طبع ہو ئی۔
9۔کتاب العقائد:
قاضی احتشام الدین مراد آبادی صاحبِ تصانیف کثیر ہ تھے ، لیکن ہمارے لیےان کی انہیں مذکورہ بالا کتابوں سے آگاہی ممکن ہو سکی ۔ خیال ہے کہ اس کے علاوہ بھی قاضی صاحب نے مز ید کتابیں لکھی ہونگیں۔
مرزا قادیانی کے اولین فتویٰ تفکیر پر جو سید نذیر حسین محد ث بحاری ثم دہلوی نے دیا تھا، اس پر قاضی احتشام الدین کی تائید بائیں الفاظ درج ہے:
مرزا غلا م احمد قادیانی کے بہت سے اقوال عقائد اسلام کے خلاف ہیں۔ مثلا وہ آخر زمانہ میں حضر ت عیسیٰ علیہ السلام کا منکر ہے۔ حالا نکہ یہ مضمون احادیث صحیحہ سے ثابت ہےاور ان میں مجاز اور استعارے کی کو ئی ضر ورت نہیں اور بلا ضرورت مجاز ماننا ضلالت کا دروازا کھولنا ہے۔ علا وہ اس کے بعد روایتیں ایسی بھی ہیں جو استعارے کو رد کر دیتی ہیں۔ علاوہ اس کہ انہوں نے ازالہ اہام میں ایسی تقریر کی ہے جس سے متبادر یہی ہے کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کہ منکر ہیں۔ چناچہ ازالہ اوہام کہ حصہ اول میں صفحہ 6 ،7 کی عبارت اس کی شاہد ہے قرآن میں جو مذکور ہےکہ حضر ت عیسیٰ علیہ السلام نے یہ کہا تھا کہ میں مٹی کے جانور بناتا ہوں اور ان میں پھونکتا ہوں تو وہ اللہ کے حکم سے اڑنے لگتے ہیں۔اس کی تاویل مرزا غلام احمد نے یہ کی ہےکہ حضر ت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے باپ یو سف نجار کے ساتھ مدت تک نجاری کام کیا رتھا اور وہ کچھ ایسی کلیں سیکھ گئے تھےجن کے ذریعے جانور اڑتے تھے۔ جیسے آج کل کہ ضاع انگریز بنا لیتے ہیں اور حضر ت عیسیٰ جو مردہ کو زندہ کر تے تھے وہ مسمریز کاعمل تھا جو آج کل انگر یز وں میں بھی ہے۔ ان اقوال میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے معجزوں کا انکار بھی ہوا اور یو سف نجا ر کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا باپ بھی بنادیا۔
اس قسم کے اقوال ان کتابو ں میں بہت سے ہیں جو درحقیقت بد عت ہیں۔ بعض کفر کے مر تبہ تک بھی پہنچے ہیں۔
واللہ اعلم بالصواب۔
راقم محمد احتشام الدین مراد آبادی۔ پاک وہند کے علمائےاسلام کا اولین متفقہ فتویٰ:157
قاضی احتشام الدین مراد آبادی کا انتقال 1330ھ/1912ء کو مراد آباد میں ہوا۔ملک عبدالرشید عراقی(سوہدرہ ) نے اپنی کتاب برصغیر پاک و ہند میں علمائے اہلِ حدیث کی تفسیری خد مات کے طبع اول میں سن وفات 1313ھ لکھا ہے اور اسی کتاب کے طبع ثانی میں سن وفات 1300 ھ لکھا ہے یہ دونو ں ہی سنین وفات درست نہیں۔
حواشی
(1) مولانا حافظ عزیز الدین آبادی، مراد آباد کے مختلف علماء سے کسب علم کیا، جن میں قاضی احتشام الدین، مولانا سید عبدالرشید، مولانا حافظ محمد حسین، مولانا عبدالعزیز وغیرہم شامل ہیں۔ اکمل البیان فی تائید تقویتہ الایمان موصوف کی مشہور تصنیف ہیں۔1367ھ میں وفات پائی۔
( حالات کے لیے ملاحظہ ہو: تراجم علمائے حدیث ہند: ا/ 563۔565)
(2) مولانا ارشاد حسین مجددی رام پوری، حضر ت شیخ المعر وف بہ مجد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کے اولاد امجا د میں سے تھے ۔14 صفر 1248ھ کو رام پو ر میں پیدا ہو ئے ۔ لکنھؤمیں کتب درسیہ پڑ ھی اور ر ام پو ر سے علا مہ نواب سے تکمیل کی ۔ شاہ احمد سید سے سند خلا فت ملی ۔ 15 جما د الثانی 1311ھ کو بعارضہ تپ محر قہ رام پور میں انتقال کیا ۔ تلامذہ میں مشاہیر عصر شامل ہیں۔ شیخ الکل سید نذیر حسین کی تصنیف معیا ر الحق کی تر د یدانتصارالحق لکھی ۔ انتصارالحق کی تر دید میں میاں نذ یر حسین ؒ کے چار تلامذہ نے قلم اٹھا یا اور کتا بیں لکھی،مو لا نا شہو د الحق عظیم آبادی نےبحر ذ خار ، مولانا احمد حسن دہلوی نےتبصرۃ الا نظار، مولا نا امیر حسن سہسوانی نے بر اہین اثنا ء عشراور قاضی احتشام الدین نے اختیارالحق لکھی۔ (حالات کے لیے ملا حظ ہو : تذکرہ کا ملان رام پو ر : 30۔33، نزھۃ الخواطر : 8/ 49 ۔ 50 ، تر اجم علمائے حد یث ہند : ا۔/148)
(3)مولانا عبد الشکور فاروقی لکھنؤی ذی الحجہ 1283ھ میں کا کو ری میں پیدا ہوئے ، فتح پور میں تربیت پائی ، مولا نا نور محمد فتح پوری سے مختصرات پڑھی ، پھر لکھنؤ میں کتب درسیہ کی تکمیل مولانا عین القضاۃ لکھنؤ ی سے کی ۔ طب حکیم عبد الولی سے پڑھی ، ایک زمانہ تک درس وتدریس کا فریضہ انجام دیا ،پھر دہلی تشر یف لے گئے جہا ں مرزا حیرت دہلو ی کے پاس قیام کیا،اس کے بعد دوبارہ لکھنؤ کی طرف شدر حال کیا اور وہا ں مدرسہ فرقانیہ لکنھؤ میں فریضئہ تدریس انجام دینے لگے ۔شیخ ابو احمد بھوپالی کے خلیفہ تھے ۔ردشیعیت میں بہت زیادہ ساعی تھی ، فقہ وتاریخ پر بہت گہر ی نظر تھی ۔تصانیف میں علم الفقہ، سیر ۃخلفائے راشدین، سیر ۃ الحبیب الشفیع من الکلام العزیز الرفیع وغیر ہا کا ذکر ملتا ہے ، اس کے علاوہ اسد الغابتہ ،تاریخ طبری اور ازالتہ الخفا ء عن خلا فۃالخلفاءکے اردو تر جمے بھی آ پ کے رشحات قلم سے یاد گار ہیں ۔ ذیقعد 1381ھ میں وفات پا ئی ۔ (حالات کے لیے ملاحظہ ہو: نز ھتہ الخواطر: 8/253۔256)
[ اصحاب علم وفضل] (صفحہ 19 تا 23)
مؤلف :محمد تنزیل الصدیقی الحسینی
یہ بھی پڑھیں: ’’علماء وطلباء کے آداب سے متعلق امام فضیل بن عیاض رحمہ اللہ کے اَقوال‘‘