سوال (4357)
مشائخ کرام سے سوال ہے کہ ایک عورت خلع لینا چاہتی ہے، اپنی مرضی سے نان نفقہ وغیرہ کا کوئی مسئلہ نہیں ہے، لیکن اس کا شوہر خلع دینے کے لیے راضی نہیں ہے اور وہ عورت کورٹ جاتی ہے تو جج اس کا زبردستی خلع کرواسکتا ہے اور اس کے حق مہر کا کیا حکم ہے کیا شوہر کو واپس کرے گی؟
جواب
یہ یاد رہے کہ ضرورت کے تحت یعنی معقول عذر کے ساتھ عورت خلع لے سکتی ہے، بغیر عذر کے خلع لینے کی وعید ہے، باقی آپ ان کو یہ بات پہنچا سکتے ہیں، تبلیغ کر سکتے ہیں، باقی آپ منوا نہیں سکتے، کیونکہ منوانا اللہ تعالیٰ کا کام ہے، اگر دونوں فریق کسی کی بات سن کر بننا چاہتے ہیں تو کسی عالم دین کو بیچ میں ڈال کر مسئلے کو حل کرنا چاہیے، بصورت دیگر عورت عدالت سے خلع لے سکتی ہے، باقی شوہر کا راضی ہونا یا نہیں ہونا یہ کوئی مسئلہ نہیں ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ثابت بن قیس سے یہ نہیں پوچھا تھا کہ آپ کیا چاہتے ہیں، بلکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کو فرمایا ہے یہ آپ کے ساتھ رہنا نہیں چاہتی، اس کو فارغ کردیں، بس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ثابت بن قیس رضی اللہ عنہ کو حق مہر واپس دلوا دیا تھا، لہذا کسی درجے میں خلع جبر رکھتا ہے، یہ جبر معقول ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
شیخنا میں آپ کی بات پر اضافہ کر رہا ہوں، اس عورت کی بات کر رہا ہوں جو خلع کسی خاص وجہ کے لیے لیتی ہے، عورت خلع اس وقت لیتی ہے، جب شوہر اس کو انسان کے بچوں کی طرح رکھتا بھی نہیں، اور طلاق بھی نہیں دیتا، عورت عدالت اس وقت جاتی ہے، جب اس کو اس حد تک تنگ کیا گیا ہو، نہ اس کو بسایا جاتا ہے، نہ اس کو چھوڑا جاتا ہے، اس کو معلق کردیا جاتا ہے تو پھر اللہ تعالیٰ نے قاضی کو اختیار دیا ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ