قضیہ فلسطین اور مختلف معاشرتی کردار
فلسطین اور غزہ کے لیے اظہار یکجہتی کرنا اس اسلامی اخوت اور آپسی اتحاد و اتفاق کا تقاضا ہے، جسے قرآن و حدیث میں مختلف انداز سے بیان کیا گیا ہے۔
کچھ لوگ براہ راست جہاد کر رہے ہیں، کچھ ان کے لیے مالی امداد بھیج رہے ہیں، کچھ زبان و قلم سے ان کا دفاع کر رہے ہیں، ان سے اظہار یکجہتی کے لیے یہودی مصنوعات کا بائیکاٹ کیا جا رہا ہے، اور اس کے لیے دوسروں کو ترغیب اور جوش دلایا جا رہا ہے، کچھ لوگ دیگر طریقوں سے ان کے مسائل کے حل پر توجہ دے رہے ہیں۔ الغرض ہر کوئی درجہ بہ درجہ اس کوشش و کاوش میں شریک ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔ ظالم کا ظلم اس حد تک بڑھا ہے کہ مسلمان تو مسلمان بہت سارے کافر بھی اس پر سراپائے احتجاج ہیں۔
یہ ایک عمومی ماحول اور رویہ ہے لیکن اس سلسلے میں کچھ خرابیاں بھی ہیں، جو قابل اصلاح ہیں:
1۔ بعض لوگ کسی ایک طریقے سے اس کاز کی نصرت و حمایت کر رہے ہیں، اور وہ چاہتے ہیں کہ سارے اسی ڈگر پر چلیں، اور اگر کوئی ان کی طرح نہیں کرتا تو اس کا مطلب ہے کہ وہ قضیہ فلسطین سے مخلص نہیں ہے۔ حالانکہ مطلوب سب سے ایک ہی کام کرنا نہیں، بلکہ جو جتنی استطاعت رکھتا ہے، اس حساب سے اپنا کردار ادا کرنا ہے۔
2۔ اگر کوئی براہ راست جہاد میں حصہ لے سکتا ہے، لیکن وہ صرف زبانی کلامی دفاع پر اکتفا کر رہا ہے، تو اس کا مطلب ہے کہ وہ اپنے فرض میں کوتاہی کا شکار ہے۔ کوئی اقوام متحدہ جیسے پلیٹ فارمز پر اس قضیہ کی نصرت و تائید کرنے کی اہلیت رکھتا ہے، لیکن وہ سوشل میڈیا یا لوکل میڈیا پر بولنے پر اکتفا کرے تو اس کا مطلب ہے کہ اس نے حق ادا نہیں کیا۔
اسی طرح ایک عام آدمی اور ایک حاکم اور سپہ سالار کی استطاعت و اہلیت اور اس کے فرائض اور ذمہ داریوں میں فرق ہے۔
3۔ بعض لوگ ایسے بھی ہو سکتے ہیں کہ جو اوپر ذکر کردہ کسی بھی ذریعہ سے اس قضیے میں شریک نہیں ہو سکتے، ان کی ذاتی، علاقائی، ملکی یا کسی طرح بھی مجبوری ہو سکتی ہے، یقینا ان کے عذر کو اللہ تعالی بہتر جانتا ہے اور اس سے بھی با خبر ہے کہ وہ کس حد تک معذور ہیں۔
جب میں معذور کی بات کر رہا ہوں تو اس سے مراد کوئی عام شخص بھی ہو سکتا ہے، اور امت کا عظیم طبقہ جس کو اولوا الأمر کہا گیا، یعنی علماء و حکمران بھی ہو سکتے ہیں، ہم ان لوگوں میں سے کبھی نہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ عالم اور حاکم کو ہماری سطح یا لیول پر آ کر جو ہم چاہتے ہیں، فورا وہی کر دے، یقینا وہ اپنے متعلقہ چیزوں کو بہتر سمجھتے اور جانتے ہیں۔
4۔ اس قضیے میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں کہ نام فلسطین و غزہ کا لیں گے، لیکن انہیں اس قضیے سے صرف اتنی دلچسپی ہے تاکہ اس مقدس مشن کی آڑ میں علماء کو برا بھلا کہ سکیں، حکومت وقت کے خلاف اپنے بغض کا اظہار کریں، بعض ملکوں، تنظیموں اور مسالک کو نیچا دکھا سکیں، دین کے اصول و فروع پر عمل کرنے والے مسلمانوں کو یہ باور کروا سکیں کہ تم تو دو رکعت کے نمازی اور امام ہو اور ہم ہیں جنہیں امت اور اس کے مسائل کا شعور ہے، ظاہر ہے یہ رویہ کلمۃ حق أرید بہا الباطل ہے۔ ایسے لوگ اپنی نیت کے مطابق اس حرکت کا خمیازہ بھگتیں گے۔
5۔ پانچویں لوگ چوتھے کے بالکل برعکس ہیں، یہ فلسطین کے متفق علیہ قضیہ کی نصرت و تائید سے صرف اس لیے دست کش ہوے پھر رہے ہیں، اور اس میں پیش پیش لوگوں پر تلواریں صرف اس لیے سونتے ہوئے ہیں، کیونکہ ان کے نزدیک جہاد کرنے والے، ان کا دفاع کرنے والے، ان کی مدد کرنے والے، ان کے لیے قربانیاں دینے والے، سارے کے سارے غیر منہجی یعنی ان کے عقیدہ، فرقہ، جماعت، تنظیم اور مسلک کے لوگ نہیں ہیں، لہذا ان لوگوں کے نزدیک اگر ہم قضیہ فلسطین کی جد وجہد کا حصہ بن گئے تو گویا ہم ’ابناء اللہ و أحباؤہ’ کے درجے سے نیچے آکر گمراہ لوگوں کی طرح ہو جائیں گے۔
اس میں بعض لوگ تو خاموشی میں عافیت سمجھتے ہیں، لیکن بعض اس سے اگلے درجے میں داخل ہو جاتے ہیں، جس کا ذکر آگے ملاحظہ کریں۔
6۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نہ صرف قضیہ فلسطین سے پیچھے رہے، بلکہ انہوں نے پیچھے رہنے کے شرعی دلائل گھڑے اور آگے بڑھنے والوں میں خرابیاں نکالنا شروع کر دیں، تاکہ یہ ثابت کیا جا سکے کہ ہم بالکل درست ہیں، اور ہمارا پیچھے رہنا کسی عجز و انکساری یا عذر کے سبب نہیں، بلکہ اصل حق ہی یہ ہے۔ ان لوگوں نے پھر باقاعدہ قضیہ فلسطین میں ایک مخالف بیانیہ بنایا۔ کسی نے غزہ کے جہاد کو مشکوک بنایا، کسی نے ان کی مدد و نصرت کے ذرائع مشکوک ٹھہرائے، کسی نے ان سے اظہار یکجہتی کرنے والوں کی نیتوں پر حملے کیے۔
کسی نے مجاہدین کو مکار و فریبی کہا اور اسرائیلی صیہونیوں کی ہاں میں ہاں ملاتے ہوئے ان پر تابڑ توڑ حملے کیے اور مجاہدین کی شہادتوں پر یہودیوں کی طرح خوشیاں منائیں۔
کسی نے کہا کہ دیکھو اصل چیز تو توحید و سنت ہے، اس طرف توجہ کرو، کیا تم نے ہر وقت غزہ غزہ لگایا ہوا ہے۔ حالانکہ توحید و سنت علم، عقیدہ، نظریہ، عمل اور عبادت ہونے کے ساتھ ساتھ ایک غذا اور دوا ہے جو انسان میں کھوٹے کھرے کا شعور پیدا کرتی ہے، اسے معاشرے کے ساتھ جوڑتی ہے، امت کے دکھ درد کا اس میں شعور پیدا کرتی ہے، علم شرعی کوئی نشہ یا افیون نہیں جو انسان کو مست بنا دے کہ اس کے ارد گرد جو مرضی ہوتا رہے، اسے کوئی پرواہ نہ ہو اور وہ اپنے علمی، عقدی اور فقہی نکات میں مگن رہے۔
جب ہر طرف غزہ غزہ اور فری فلسطین کے لیے آواز بلند ہونے لگی تو ان متخلفین بلکہ معاندین نے خود کو ’غرباء’ اور ’اجنبی’ ڈکلیئر کرنا شروع کر دیا کہ ہم ’اہل حق’ غربت کی زندگی جی رہے ہیں، ساری دنیا جو مرضی کر لے، ہم حق پر ڈٹے رہیں گے!
کسی کو پورا سوشل میڈیا غزہ کی خبروں سے بھرتا ہوا نظر آیا اور ہر طرف ان پاکستانیوں کی گونج نظر آئی جو اپنی جانیں ہتھیلی پر رکھ کر سمندروں پر سوار ہو کر اہل غزہ سے اظہار یکجہتی کر رہے تھے تو انہیں اس میں علم کا زوال نظر آنا شروع ہو اور فورا گویا ہوئے کہ اہل علم کو سیاست زیب نہیں دیتی، علم کو چھوڑ کر ہر وقت سیاسی تبصروں اور خبروں میں الجھے رہنا یہ طلبہ کے شایانِ شان نہیں۔
اللہ کے بندے یہ کون سی خبریں ہیں؟ کرکٹ میچ کی یا کسی ملکی سیاست کی؟ غزہ کی خبروں میں اگر اہل علم اور طلبہ دلچسپی لے رہے ہیں تو اس میں کیا عجب؟ اسلامی اخوت و ہمدردی اور ولاء و براء کے عقیدوں کو سبقا سبقا پڑھنے پڑھانے والے بھی غزہ کی خبروں میں دلچسپی نہ رکھیں تو کون رکھے گا؟!
ومنهم من يقول ائذن لي ولا تفتني ألا في الفتنة سقطوا..!!
شرم و حیا سے عاری وہ لوگ بھی دیکھے جو پہلے کہتے رہے کہ یہاں باتیں کرنے کی بجائے غزہ کی مدد کے لیے کیوں نہیں جاتے، لیکن جب کچھ لوگ چلے گئے تو انہوں نے کہا دیکھو ریاکار ڈرامے کر رہے ہیں، کسی نے کہا یہ حکمرانوں کی توہین ہے، کسی نے کہا یہ تو بغاوت ہے، یہ اولوا الأمر کی اطاعت سے خارج ہیں، حالانکہ وہ اپنے اپنے ملکون سے قانون کے مطابق ویزے لے کر نکلے، باہر جا کر عالمی قوانین کو فالو کیا، اور وہ کام کیا جس کے کرنے کا پوری دنیا میں سے کسی کو بھی حق حاصل ہے…!
کسی نے کہا نہتے کیوں گئے تھے؟ حالانکہ اسلحہ لے کر جاتے تو انہیں باغی کہتے، کسی نے کہا سمندر سے کیوں گئے جہاز پر کیوں نہیں گئے؟ کسی نے امدادی سامان پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ کتنے کلو تھا؟ کسی کالی زبان والے دور اندیش نے یہ بھی کہا کہ دیکھنا غزہ کے امدادی خود پکڑے جائیں گے، اور جب قافلے پر حملہ ہوا تو شادیانے بجانا شروع کر دیے…!
یاد رکھیں توحید و سنت بھی اہم ہے، قرآن و حدیث کا علم بھی ضروری ہے، ارکان اسلام و ایمان کے بغیر بھی کوئی چارہ نہیں، علمی رسوخ اور عملی تربیت کے بغیر بھی آگے بڑھنا ممکن نہیں، لیکن ان میں سے کسی چیز کا تقاضا نہیں کہ جب کوئی فلسطین یا غزہ کا نام لے، آپ اسے یہ بتانا شروع کر دیں کہ پہلے یہ کام تو کر لو، پھر غزہ و فلسطین کی بات بھی کر لینا…! اسی ضمن میں بعض لوگوں نے یہ نعرہ ایجاد کیا کہ سب سے پہلے دین اور پھر فلسطین..! گویا دین اور فلسطین کوئی دو متضاد چیزیں ہیں..!
کچھ لوگوں نے جہاد اور امت کا درد، اور قضایا کبری کی آڑ میں دین کے کئی اصولی اور فروعی مسائل کا انکار کرنے کی کوشش کی، جو کہ بالکل غلط تھی، لیکن اس کے برعکس بھی تو حقیقت ہے کہ کچھ ان اصولی اور فروعی مسائل کو قضایائے امت کے لیے رکاوٹ بنا کر پیش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایک صاحب کو دیکھا، لکھا ہوا تھا کہ لوگ احتجاجی مظاہرے کر رہے ہیں، لیکن دعا نہیں کر رہے، اور کہا کہ گویا ان کے نزدیک احتجاج سے کچھ ہو گا، دعاؤں سے کچھ نہیں ہو گا.. میں نے عرض کیا احتجاج کرنا بھی اہل علم کی ایک جماعت کے نزدیک جائز وسیلہ ہے، اگر اس میں شرعی مخالفات نہ ہوں، لیکن آپ بتائیں کہ آپ نے دعا کتنی بار کی ہے؟ اور کتنے لوگوں کو دعا کی توجہ دلائی ہے؟ ہو سکتا ہے آگے سے کہا جائے کہ ہم نے آپ کو بتا کر کرنی ہے، تو جناب یہ جواب احتجاج کرنے والوں کی طرف سے بھی سمجھ لیں کہ انہوں نے احتجاج دنیا کو دکھانے کے لیے کرنا ہے، اور دعا اللہ سے کرنی ہے جو دنیا کو دکھانا ضروری نہیں، لہذا احتجاج کو دیکھ کر یہ فرض کرلینا کہ یہ دعا نہیں کرتے ہوں گے بدگمانی کی ایک صورت ہے۔
کسی عالم دینے نے کیا خوب بات کہی کہ غزہ کی مزاحمت کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ اس کی وجہ سے امت میں جہاد کی روح بیدار ہوئی اور اتحاد و اتفاق کی ضرورت و اہمیت نمایاں ہونا شروع ہو گئی۔ یہی وجہ ہے کہ جن حکمرانوں کی آڑ لے کر امت کے اتحاد و اتفاق کو تار تار کیا جاتا تھا، آج وہ خود اس کی اہمیت و ضرورت سے واقف ہو چکے ہیں، لیکن آڑ لینے والے معاندین کی سوئی ادھر ہی اٹکی ہوئی ہے۔ حاکم وقت صمود فلوٹیلا کے شرکاء پر فخر کر رہا ہے، جبکہ معاند انہیں باغی قرار دے رہا ہے، حاکم جن سے ہاتھ ملا کر معاہدے کر رہا ہے، معاند ان پر فتوی لگا کر لوگوں کو اس سے تحذیر کر رہا ہے۔
گزارش یہ ہے کہ ٹانگیں کھینچنا چھوڑیں، خدشات کی دنیا سے باہر نکلیں، اور جو کر سکتے ہیں وہ کریں، قرآن وسنت کی روشنی میں جس طرح آپ مناسب سمجھتے ہیں جان، مال، وقت، قلم، تعلیم و تدریس، دعوت و تبلیغ، مناظرے، مباحثے، ٹاک شوز وغیرہ جس طرح بھی ممکن ہو قضیہ فلسطین میں حصہ ڈالیں، نہیں بھی ڈالنا کم از کم درجہ یہ ہے کہ خاموش رہیں۔
#خیال_خاطر