سوال (1368)

ایک دوست نے نئی جگہ پر کسی سے قبلہ رخ پوچھا تھا ، بتانے والے نے غلطی سے غلط بتادیا ہے ،کافی دن بعد معلوم ہوا کہ قبلہ رخ درست نہیں ہے اب درست معلوم ہونے پر پرانی نمازوں کا کیا کیا جائے گا ؟

جواب

“وَ لِلهِ الۡمَشۡرِقُ وَ الۡمَغۡرِبُ فَاَیۡنَمَا تُوَلُّوۡا فَثَمَّ وَجهُ اللّهِ ؕ اِنَّ اللّهَ وَاسِعٌ عَلِیۡمٌ” [سورة البقرة: 115]

«اور اللہ ہی کے لیے مشرق و مغرب ہے، تو تم جس طرف رخ کرو، سو وہیں اللہ کا چہرہ ہے۔ بے شک اللہ وسعت والا، سب کچھ جاننے والا ہے»
ابن عمر رضی اللہ عنھما فرماتے ہیں کہ مکہ سے مدینہ کی طرف آتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر (نفل) نماز پڑھتے رہتے تھے، اس کا رخ جدھر بھی ہوتا۔ فرماتے ہیں، اسی کے بارے میں یہ آیت اتری :
[ مسلم، صلوۃ المسافرین، باب جواز النافلۃ : ۳۳؍۷۰۰ ]

فضیلۃ الباحث نعمان خلیق حفظہ اللہ

نئی جگہ جا کر آدمی تحری کرے اور کوشش کرے کہ قبلہ رخ معلوم کر سکے ، اس قبیل سے سوال کرنا ہے ، اگر اس نے بعض مقامی لوگوں سے سوال کیا تو اس سے ذمہ ادا ہوا ، بعد میں پتہ چلا کہ اسے غلط خبر دی گئی ہے تو اب وہ صحیح جہت کی طرف رخ کرے اور جو نمازیں غلط رخ کی جانب ادا کی ہیں ان کی قضائی نہیں ہے ، جی بالکل جب آدمی اپنی پوری کوشش کر چکے اور غالب گمان ہو کہ اس طرف قبلہ ہے۔ تو وہ ادھر ہی کو نماز پڑھے۔
اگرچہ امر واقع میں اس کے خلاف ہو “اینما تولوا فثم وجہ اللہ” یا یہ کہ نفل نماز سفر میں قبلہ رخ کے مخالف سمت یا کسی اور جانب منہ ہونے کی صورت میں ادا ہو جائے گی۔

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ