سوال
مجھے ایک چھوٹا سا مسئلہ پوچھنا تھا، فرض کریں کہ میں نے ایک لاکھ روپے کی کسی کو کوئی چیز دی، اور ہمارا معاہدہ یہ طے ہوا کہ وہ خریدار ایک سال کے اندر وہ رقم مجھے قسطوں میں ادا کرے گا۔ ادائیگی کا طریقہ بھی واضح طور پر طے ہو گیا، اور اسی ایک سال کی مدت میں میں نے وہ چیز تیار کر کے اس کے حوالے کرنی ہے۔
اب معاہدہ طے ہونے کے کچھ عرصے بعد خریدار نے مجھ سے کہا کہ آپ مجھ سے قسطوں میں رقم لینے کے بجائے ایک لاکھ کی جگہ 90 ہزار روپے ابھی اکٹھے لے لیں۔ یعنی وہ رقم فوراً دے دے گا، لیکن قیمت میں 10 ہزار کمی کا کہ رہا ہے۔
سوال یہ ہے کہ آیا میرے لیے شرعاً یہ جائز ہے کہ میں جلدی رقم وصول کرنے کے بدلے قیمت کم کر دوں؟
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
“يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَوۡفُوۡا بِالۡعُقُوۡدِ”. [المائدة: 01]
’’اے ایمان والو! اپنے عہد پورے کرو‘‘۔
جب ایک مرتبہ بیع (خرید و فروخت) کا معاہدہ طے پا جائے تو شرعاً دونوں فریق اس کے پابند ہوتے ہیں، اور اس معاہدے میں از خود تبدیلی جائز نہیں ہوتی۔ لیکن اگر فریقین باہمی رضامندی سے اس معاہدے کو فسخ کرنا چاہیں اور اس کی جگہ نئے اصول و شرائط پر نیا معاہدہ کریں، تو ایسی صورت میں شرعاً کوئی حرج نہیں ہے، بشرطیکہ یہ نیا معاہدہ باہمی رضامندی سے ہو۔
لہٰذا اگر آپ اور خریدار باہمی رضا مندی سے پہلے معاہدے کو ختم کر کے نیا معاہدہ طے کرتے ہیں، جس میں طے کیا جاتا ہے کہ قسطوں کی بجائے نقد رقم فوراً ادا کی جائے گی اور قیمت ایک لاکھ کی بجائے 90 ہزار ہو گی، تو یہ صورت شرعاً جائز ہے۔
کیونکہ یہ عمل یک طرفہ نہیں بلکہ دونوں کی رضامندی سے ہو رہا ہے، اور اس میں پہلا معاہدہ فسخ کر کے ایک نیا عقد وجود میں آرہا ہے، شریعت میں باہمی رضامندی سے عقد یا فسخ جائز ہے۔
لِہذا آپ باہمی رضامندی سے پرانے معاہدے کو ختم کرکے نئے عقد کیساتھ قسطوں میں ایک لاکھ لینے کی بجائے نقد 90 ہزار وصول کرسکتے ہیں، اس میں شرعا کوئی قباحت اور حرج نہیں ہے۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحلیم بلال حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ مفتی عبد الولی حقانی حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ محمد إدریس اثری حفظہ اللہ