سوال (325)

ایک شخص کوئی چیز خریدنا چاہتا ہے مثلا گاڑی وغیرہ، اس کے پاس اتنی رقم نہیں کہ وہ یک مشت ادا کرسکے، ماہانہ قسط دے سکتا ہے، لیکن قسطوں والا موجودہ سسٹم بھی قابل اعتبار نہیں ہے، اس کا حل یہ بھی ہے کہ کسی دوست سے قرض حسنہ لیا جائے اور اس سے اپنی ضرورت پوری کرکے اسے قسطوں میں ادائیگی کردی جائے یہ تو بالکل واضح ہے۔
کیا اسی صورت کو ایسے کرلیا جائے کہ قرض حسنہ دینے والا اس چیز کو خرید لے جب وہ اس کا مالک بن جائے تو قسطوں میں دوسرے کو فروخت کردے اور اس میں جو بھی قیمت طے پائے۔ اس حوالے سے رہنمائی فرمائیں۔

جواب

دونوں صورتیں درست اور جائز ہیں۔

فضیلۃ الباحث نعمان خلیق حفظہ اللہ

سوال: کیا قسطوں پر چیز لی جا سکتی ہے؟

جواب: قسطوں پر چیز لی جا سکتی ہے، بشرطیکہ ہر چیز طے کی جائے، یہ قیمت ہے، یہ چیز ہے، قسطوں کا یہ شیڈول ہے، اس طریقے سے ادا کرنا ہے، اتنے سالوں میں دینا ہے، لیٹ فیس اور اضافی چارجز نہیں ہونگے، پھر یہ جائز ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

سوال: ایک شخص نے بینک سے قسطوں پر گاڑی لی ہے، جس پر سودی معاہدہ ہے، اور اب وہ آپ کو وہ گاڑی فروخت کرنا چاہتا ہے جبکہ بینک کی کچھ اقساط ابھی باقی ہیں۔ آپ اس گاڑی کی موجودہ مارکیٹ قیمت ادا کرنے کو تیار ہیں۔ اس صورت میں شرعی حکم درج ذیل ہے:

جواب: اب مشایخ اپنی رائے دیں گے ان شاء اللہ۔ میری رائے میں: آپ نے جو پیسے لینے ہیں، اور وہ (شخص) آپ کو گاڑی دیتا ہے، اور اس گاڑی کے ذریعے آپ کے پیسے پورے ہو جاتے ہیں یا زیادہ ہو جاتے ہیں، تو آپ (اضافی رقم) واپس کر دیں، اور گاڑی لے کر اپنا معاملہ سیدھا کر لیں۔ باقی رہ گئیں قسطیں، تو وہ قسطیں وہ خود بھرے گا، کیونکہ وہ سودی قسطیں ہوں گی، اور وہ آپ نہیں بھر سکتے، نہ ہی آپ کو بھرنی چاہییں۔”

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

اسلامی بینکوں سے گاڑی قسطوں پر لینا جائز ہے۔ بشرطیکہ:

متعین وقت کی ڈیل فکس ہو ( KIBOR Rate) وغیرہ طے ہو،

قسط لیٹ ہونے پر جبری یا اختیاری جرمانہ ادا نہ کیا جائے۔

دوران معاہدہ  پیمنٹ ارینج ہوجانے پر ڈیل کینسل نہ کی جائے۔

فضیلۃ الباحث حافظ علی اکبر حفظہ اللہ

سائل: ان شرائط پر کون سا بینک گاڑی دیتا ہے؟

جواب: باقی بینک الاسلامی کا پروسیجر کافی آسان ہے، تقریبا یہی ہے۔ اگر کلائنٹ خود خراب نہ کرے۔

فضیلۃ الباحث حافظ علی اکبر حفظہ اللہ

گاڑی کسی بھی طرح بینک سے لی گئی ہو، الغرض وہ سود ہے، وہی سود ہے، اس پر مزید تبصرہ کرنا صحیح نہیں ہے، اصل سوال یہ ہے کہ وہ گاڑی اب آپ کو بیچ رہا ہے، تو اس کو لینے میں چند شرطوں کو ملحوظ خاطر رکھا جائے۔

پہلی چیز کیا جو گاڑی بیچ رہا ہے، کیا اس کے نام گاڑی رجسٹر ہوچکی ہے، اس نے قبضہ لے لیا ہے، ایک ملکیت اور دوسرا قبضہ ہے، بینک سے جو گاڑیاں قسطوں میں لی جاتی ہیں، قبضہ تو حاصل کر لیتا ہے، لیکن ملکیت نہیں ہوتی ہے، اگر ملکیت اور قبضہ دونوں چیزیں ہیں، تو بیچ سکتا ہے، شرط یہ ہے کہ آپ کے اس کے درمیان معاملات کلیئر ہوں، دو چار یا پانچ قسطوں میں پیسے طے ہوں، یہ گناہ بینک سے جس نے خریدا ہے، اس کو ہوگا، باقی اگر ملکیت نہ ہو، قبضہ ہو تو بیچ نہیں سکتا ہے، آپ ملکیت اور قبضہ دونوں ہوں، تو آپ خرید سکتے ہیں، باقی یہ ہے کہ بینک کے بقیہ اقساط آپ کے ذمے نہیں ہیں، اگر وہ کہتا ہے کہ بینک کے بقیہ اقساط آپ عطا کریں، تو آپ بھی گناہ میں شریک ہیں۔

فضیلۃ الشیخ فیض الابرار شاہ حفظہ اللہ