سوال (1445)

قسطوں پہ خرید و فروخت کی تفصیل درکار ہے ؟

جواب

قسطوں پر خریداری کی مختلف صورتیں :
(1) : نقد اور ادھار دونوں صورتوں میں ایک ہی قیمت ہو ۔ ایسا شاذ و نادر ہوتا ہے ۔ تاہم اس کے جواز میں کوئی کلام نہیں ۔
(2) : ادھار میں نقد سے زیادہ قیمت وصول کی جائے ۔ مثلا یوں کہا جائے کہ یہ چیز نقد سو روپے کی اور ادھار ایک سو دس کی ہوگی ۔ اس کے بارہ میں تین نقطہ نظر ہیں :
پہلا موقف :
جمہور فقہاء و محدثین رحمہم اللہ کی رائے میں یہ جائز ہے ۔ چنانچہ امام شوکانی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں :

“و قالت الشافعیة والحنفية و زيد بن علي والمؤيد بالله والجمهور إنه يجوز”[نيل الأوطار ج 8 ص 201]

اهل حديث علماء میں سے سید نذیر حسین محدث دہلوی ، نواب صدیق حسن خان اور حافظ عبد اللہ محدث روپڑی رحمہم اللہ جمیعا بھی اس کو جائز قرار دیتے ہیں ۔ [فتاوی نذیریہ ج 2 ص 162 و الروضۃ الندیۃ ج 2 ص 89 و فتاوی اہل حدیث ج 2 ص 663 ، 664]
سعودی عرب کے سابق مفتی اعظم شیخ ابن باز رحمہ اللہ بھی اس کے جواز کے حامی ہیں چنانچہ وہ فرماتے ہیں :
” قسطوں کی بیع میں کوئی حرج نہیں جب کہ مدت اور قسطیں معلوم ہوں خواہ قسطوں کی صورت میں قیمت نقد قیمت سے زیادہ ہو کیونکہ قسطوں کی صورت میں بائع اور مشتری دونوں فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ بائع زیادہ قیمت سے اور مشتری مہلت سے فائدہ اٹھاتا ہے ۔ ” [فتاوی اسلامیہ ج 2 ص 445]
اسلامی فقہ اکیڈمی جدہ نے بھی اپنے چھٹے اور ساتویں اجلاس میں جو بالترتیب سترہ تا تیس شعبان 1410 ھ اور سات سے بارہ ذوالقعدہ 1412 ھ کو جدہ میں ہوئے ، اس کو جائز قرار دیا ہے ۔ چھٹے اجلاس کی قرار داد کے متعلقہ الفاظ یہ ہیں :

“تجوز الزيادة في الثمن المؤجل عن الثمن الحال كما يجوز ذكر ثمن المبيع نقدا و ثمنه بالأقساط بمدة معلومة” [موسوعة القضايا الفقهية المعاصرة والاقتصاد الإسلامي للدكتور على أحمد سالوس]

” ادھار میں نقد سے زیادہ قیمت جائز ہے ۔ جس طرح چیز کی قیمت نقد اور متعینہ اقساط میں ذکر کرنا جائز ہے ۔ ”
ساتویں اجلاس کے الفاظ یوں ہیں :

“البيع بالتقسيط جائز شرعا و لو زاد فيه ثمن المؤجل على المعجل”

” بیع قسط شرعا جائز ہے خواہ اس میں ادھار قیمت نقد سے زیادہ ہو ۔ ”
دوسرا موقف :
امام ابن حزم ، امام ابن سیرین اور زین العابدین عدم جواز کے قائل ہیں ۔
محدث البانی رحمہ اللہ بھی اسی نقطہ نظر کے حامی ہیں ۔
[سلسلة الأحاديث الصحيحة ج 5]
تیسرا موقف :
حضرات طاؤس ، ثوری ، اور اوزاعی کی رائے میں یہ ہے تو ناجائز لیکن اگر بائع اس طرح ہونے کے بعد دو قیمتوں میں سے کم یعنی نقد والی قیمت وصول کرے تو جائز ورنہ نا جائز ۔
[سلسلة الأحاديث الصحيحة ج 5]
پہلا موقف راجح ہے ۔

فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ