فلسطین آج اگر اسرائیل کے پنجہ استبداد میں بے تو اس کی وجہ بزدل حکمرانوں کے بے حسی اور دنیا وما فیھا سے شدید محبت ہے۔ امت مسلمہ کے تمام  رعایا اور عوام دل و جان سے فلسطین کو اسرائیل کے پنجے سے آزاد کرانے کے خواہاں ہیں مگر وہ اس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکتے۔

اس وقت غزہ پر اسرائیل نے جو قیامت ڈھائی ہے۔ اس کے بعد  پھر سے قدس کی آزادی کے سلسلے میں  ہمارے ہاں  مختلف رائے اور موقف سامنے آئے ہیں کہ مسئلہ فلسطین کا حل کیا ہے؟ کیا اس کا کوئی سیاسی حل ہے جس کے لیے اسرائیل کو مسلم ممالک کے تسلیم کرنے کی باتیں بھی ہو رہی تھیں یا اس کا حل عسکری حل ہے جس کے ذریعے اسرائیل کو مقبوضہ فلسطین سے دور دھکیلا جائے۔

بین الاقوامی سیاست، عالمی جغرافیائی پیچ و خم، سٹریٹیجک معاملات کی گتھیوں کو سلجھانے والوں کے ہاں تو مسلمانوں کے لیے کوئی بھی عسکری اور جہادی تحریک جو مزاحمتی ہو، اس کاز کے لیے نقصان دہ ہے اور کارگر نہیں ہے۔ ان کے ہاں پوری بین الاقوامی برادری دنیا کے بڑے بڑے سٹیک ہولڈرز ، طاقت و اختیار اور سلطے  کے حامل ممالک کبھی بھی اس مزاحمتی عسکری تحریک کو کھلے بندوں سپورٹ کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اس لیے اسرائیل کے ساتھ روابط بڑھائے جائیں اس کو تسلیم کر لیا جائے اور وہ جتنا فلسطین مسلمانوں کو بخش دے اسے غنیمت جان کر تسلیم کر لیا جائے۔

اس حل کو اگر ہم انٹر نیشنل جیو پولیٹیکل تناظر سے دیکھیں تو ایک ممکنہ حل نظر آتا ہے جس میں کم از کم یا زیادہ نہیں تو تھوڑا علاقہ ہی اہل فلسطین کو بطور آزاد ریاست مل سکتا ہے اور یہی اس کا ممکنہ حل ہے۔ لیکن اگر ہم اس حل کی اب تک کی جانے والی پیش رفت کا جائزہ لیں تو کھل کر یہ بات سامنے آتی ہے۔ اسرائیل مسلمانوں کو آزاد فلسطین ریاست کبھی بھی نہیں دے گا۔ اس بات کا اظہار اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو میڈیا پر چند ماہ قبل کر چکا ہے جس میں اس کا کہنا تھا کہ: “ایک آزاد فلسطینی ریاست چاہے اس کا حجم کتنا ہی تھوڑا ہو یہ اسرائیل کے لیے تباہی کا پیش خیمہ ہوگی۔ اسرائیل اس بات کو کبھی بھی تسلیم نہیں کرے گا۔” لہذا جو لوگ فلسطینی مجاہدین کو اس بات ہر مطعون کر رہے ہیں کہ سعودی عرب، مصر وغیرہ اسرائیل سے روابط قائم کر کے فلسطین کے حل کے لیے پیش قدمی کر رہے تھے اور ان کے تازہ حملوں نے اس مقصد کو پس بشت ڈال دیا ہے۔ یہ سب فضول اور غیر منطقی باتیں ہیں۔

دوسرا ممکنہ طریقہ وہ حصول آزادی ہے۔ اور یہ حصول صرف اور صرف اس مزاحمت سے حاصل ہوگا جس کو جدید دنیا فریڈم فائٹنگ بھی کہتی ہے اور دنیا کے موجودہ وضعی اصول و ضوابط اسے لیگل بھی کہتے ہیں۔ دینی اصطلاح میں یہ جہاد ہے یعنی جہادی عمل ہی اس کا حل ہے۔ مگر اس حل پر اگر جلد بازی میں تجزیہ  کیا جائے تو فورا ہمیں کوئی متاثر کن یا بہت زیادہ مثبت نتائج سامنے آتے ہوئے نہیں دکھائی دیتے۔ مگر اس مزاحمت کو جاننے والے اور تاریخ کا مشاہدہ کرنے والے بآسانی ابزرو کر سکتے ہیں کہ جہاں بھی یہ مزاحمت اور جہادی تحریک شروع ہوئی وہاں ایک مخصوص وقت کے بعد ایل ایمان کو کامیابی ملی اور احتلالی قوتوں کو وہاں سے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر بھاگنا پڑا، یہ اس سلسلے میں بہت زیادہ اسلامی ممالک دیکھے جاسکتے ہیں جو ماضی قریب اور ماضی بعید میں بطور ثبوت پیش کیے جاسکتے ہیں، حالیہ اور تازہ ترین اس کی مثال افغانستان ہے جہاں پہلے روس اور پھر امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو دو عشرے بعد مار بھگایا گیا۔

فلسطین کے سلسلے میں جو طبقہ مزاحتمی تحریک  چلا رہا ہے ان کی مدد اور معاونت کے سلسلے میں  مسلمان تقسیم کا شکار ہیں۔ سنی شیعہ کی خلیج ادھر بھی کافروں نے حائل کر دی ہے اور ہمیں ایک دوسرے کا دشمن دکھا دکھا کر کسی کولیکٹو ایفرٹ تک پہنچنے سے دور کیا ہوا ہے۔ حتی کہ شیعہ و سنی اور سلفی و اخوانی چکروں میں بعض اہل سنت اسرائیل کو مظلوم اور راست موقف پر ہونے کا سرٹیفکیٹ دے رہے ہیں۔

جبکہ اس وقت جو تازہ ترین صورت احوال ہیں جو معرکے برپا ہیں ان کو دیکھا جائے تواسرائیل ایک ماہ سے زائد عرصہ بعد بھی غزہ پر فتح کرنے اور اس پر کنٹرول کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے اس کو شدید قسم کے رد عمل اور عسکری مزاحمت کا سامنا ہے۔ اپنی جدید ترین جنگی اہلیت اور سازو سامان کی موجودگی میں منہ کی کھا رہا ہے۔ ان کامیابیوں کا اگر کوئی زبانی یا تحریری دعویٰ کرتا تو کہا جاسکتا ہے تھا کہ مس لیڈنگ اور پراپیگنڈہ ہے مگر جب ان ایمان افروز کاروایوں کو کیمرے کی آنکھ سے محفوظ کر کے بطور ثبوت اور دلیل پیش کیا جا رہا ہے تو تب ان کو تسلیم نہ کرنا محض تعصب ہے اور ایسے افراد  کے لیے دست دعا ہی دراز کیاجاسکتا ہے۔

قصہ مختصر اب وقت آچکا ہے کہ مسلمان اور ان کے حکمران اب قدس کی آزادی کے لیے ایک ہوجائیں اور مجاہدین قدس کی مدد کریں، مسلم حکومتیں بھی اپنی بساط کے تحت پورا کردار ادا کریں، فلسطینیوں کی ہر سطح پر مدد کرنے کے راستے تلاش کیے جائیں۔ اس سلسلے میں کسی بین الاقوامی برادری، امریکہ و یورپ اور عالمی ادارے کے پریشر کو اس دلیل کے ساتھ ٹھوکر مار رد کردیا کر جائے کہ تم بھی تو ایک ظالم اور انسانی حقوق کی دھجیاں بکھیرنے والے بدمعاش ملک کی کھلم کھلا مدد کر رہے ہو۔ ہم اگر مظلومین کے ساتھ ہیں تو پہلے اپنے گریبان میں جھانکو، مگر یہ ہمت جرآت اور حمیت اس وقت ہوتی ہے جب مسلمان وہن کا شکار نہ ہو اور اس کے پیش نظر مفادات اور تعشیات کے تاج محل نہ ہوں۔ اللہ تعالی ہمارے فلسطینی بھائیوں کی مدد اور آزادی کے لیے اسباب پیدا فرمائے اور ہمارے حکمرانوں کو ہدایت دے۔

الیاس حامد