سوال (5942)
بعض لوگ قرعہ کو شگون یا فال سے جوڑ کر شرک سے بھی بڑھ کر برائی سے تعبیر کرتے ہیں دو میں سے کوئی ایک راستہ لینے کو استخارہ یا اس کے بغیر تذبذب برقرار رہنے پر قرعہ ڈال لینے کی شریعت میں کہاں تک گنجائش موجود ہے؟
جواب
بعض صورتوں میں قرعہ اندازی جائز ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
“فَسَاهَمَ فَكَانَ مِنَ الۡمُدۡحَضِيۡنَۚ” [الصافات:141]
پھر وہ قرعہ میں شریک ہوا تو ہارنے والوں میں سے ہو گیا۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سفر کرتے تھے، تو ازواج کے درمیان قرعہ اندازی کیا کرتے تھے، جن کا نام نکلتا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو ساتھ لے کر جاتے تھے۔
اس کو ہم مطلقاً تو حرام نہیں کہیں گے، جہاں جواز ہے، جائز کام ہے، وہاں جواز فراہم کرنا چاہیے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ