[ قران مجید : کتاب ھدایت یا “فال نکالنے والی کتاب” ؟ ]

(قران مجید سے “ریلیٹ کرنے” کے نام پر پھیلائے گئے ایک باطل تصور پر تبصرہ)

قران مجید کے بہت سے وہ اوصاف جو خود قران مجید نے بیان کئے ہیں، ان میں سے چند نمایاں ترین اوصاف نور، شفاء اور روح ہیں۔

یعنی یہ کتاب نور ہے یعنی اندھیروں میں روشنی کا سبب ہے، پھر چاہے وہ دنیا میں گمراہی اور ضلالت کے اندھیرے ہوں، یا مایوسی اور نا امیدی کی تاریکی ہو، وہ دل کی ظلمت ہو یا روح کی وحشت ہو، یا مرنے کے بعد کے مراحل میں قبر وحشر کی منازل ہوں، یہ کتاب نور ہے اور اس سے تعلق انسان کے لئے ان تمام تاریکیوں سے نجات اور روشنی کے حصول کا ذریعہ ہے۔

پھر یہ کتاب شفاء بھی ہے، جسمانی بیماریوں کے لیئے بھی چاہے وہ کیسی بھی ہوں، روحانی بیماریوں کے لئے بھی، اور قلب کی ان آفات اور روح کے ان امراض کے لئے بھی جو کبھی شبہات کی شکل میں ہوتے ہیں اور کبھی شہوات کی شکل میں۔

اسی طرح یہ کتاب روح یعنی زندگی کا باعث بھی ہے، کہ جس طرح بارش سے مردہ زمین سیراب ہو کر جی اٹھتی ہے اسی طرح انسانوں کے دل کی قحط زدہ زمینیں بھی اپنی اپنی استعداد کے مطابق اس وحی کی بارش سے زندگی کا سامن کشید کر لیتی ہیں، پھر کوئی قلب تو خوب موسلا دھار بارش سے سیراب ہو کر ہی اثر قبول کرتا ہے اور کسی کے لئے پھوار بھی کافی ہوتی ہے۔

{فإن لَّمۡ یُصِبۡهَا وَابِلࣱ فَطَلࣱّۗ } ۔

لیکن قرآن مجید سے ان فوائد کو حاصل کرنا کس طرح سے ہے، اور قرآن مجید سے استفادہ کی درست منھجیت کیا ہے، اس باب میں غالب جدیدیت کے اثرات اور شرعی علوم سے ناواقفیت اور نا اہل لوگوں کی قران مجید میں رائے زنی کی وجہ سے بعض عجیب وغریب تصورات رواج پا گئے ہیں۔

قرآن مجید کو “فال نکالنے والی کتاب” کی طرح استعمال کرنا، یا قرآن مجید کو “سیلف ہیلپ بک” قسم کی یا “موٹیویشنل اقوال” پر مشتمل کتاب تصور کرنا، یہ چاہنا کہ “میرے اس مسئلے” کا حل یہ کتاب ابھی پیش کرے، قرآن مجید کو “فرد” کے مطابق موڑنا، بلکہ اپنے “ریلیشن شپ پرابلمز” تک کا حل اس کتاب کی آیات سے بتکلف کشید کرنا، “میرے خانگی مسئلے” میں پریشان ہو کر قران کھولوں اور میرے سامنے ایک آیت آ کر میرا یہ مسئلہ حل کر دے، وغیرہ، اس سب کو قرآن مجید سے استفادے کا ذریعہ اور قرآن مجید سے “ریلیٹ” کرنے کا طریقہ سمجھ لیا گیا ہے۔ یہ “کہیں سے بھی قران کھول لیں” اور وہ آپ کی Situation کے مطابق آپ کو آیات دکھا دے گا، اس کو بعض لوگوں نے اتنا رواج دے دیا ہے کہ بہت بڑی تعداد میں نوجوان اسی کو قران مجید سے تعلق کا ذریعہ سمجھتے ہیں، حالانکہ یہ قران مجید کو “فال نکالنے والی کتاب” بنا دینے اور اس کی حد درجہ بے قدری کے سوا کچـھ نہیں۔

قرآن مجید سے استفادے کا درست طریقہ یہ نہیں کہ انسان مرکز ومخدوم ہو اور قرآن اس کا خادم ہو، بلکہ اصل یہ ہے کہ قرآن اور اس کے مقاصد مرکز ہوں اور انسان اپنے عقیدہ وعمل کی اصلاح، ایمان وایقان کی تجدید، اور سیرت وکردار کی تعمیر کے لیۓ خود کو قرآن کے سپرد کرے، قرآن مجید سے “اپنا مضمون” پڑھنا، اور قرآن سے “قرآن کا مضمون” پڑھنا، ان دونوں میں فرق ہے۔

اس جملے کو دوبارہ پڑھیئ‏ے، “قرآن مجید سے “اپنا مضمون” پڑھنا، اور قرآن سے “قرآن کا مضمون” پڑھنا، ان دونوں میں فرق ہے۔”

جب خود “قرآن کے مضمون” سے نا آشنائی اور “قرآن کے مقاصد” سے اجنبیت ہو گی، اور فکر کا مرکز “انسان” اور اس کی بھی “دنیوی زندگی” ہو گی، تب ہی آیات کا تعلق بھلے اللہ کی قدرت کی نشانیوں سے ہو، بھلے قیامت سے ہو، چاہے منکرین توحید کو ڈانٹ ہو، چاہے قیامت کے انکار پر زجر وتخویف ہو، انسان ان سب آیات کو “انسان کی لائف” سے تعبیر کرے گا، تاکہ قرآن مجید کو “ریلیٹ ایبل” بنا سکے، اور چاہے اس کے لیۓ لغت اور اس کے اسالیب، گرامر کے قواعد وضوابط، تفسیر کے اصول وضابطے، خود قرآن مجید کے سیاق وسباق سب سے ہی صرف نظر کرنا پڑے۔ مجھے خود بعض لوگوں نے کہا کہ قیامت، سابقہ واقعات اور اس طرح کے مضامین قرانی سے ہم “ریلیٹ” نہیں کر پاتے۔ اس سے اندازہ لگائیے کہ اس اپروچ کو “قران سے جوڑنا” قرار دینا یا “قران فہمی” قرار دینا کس قدر بڑی غلطی ہے۔

ذیل میں ہم اختصار کے ساتھ صرف بطور نمونہ سورۃ الملک کے چند معارف ومقاصد کو، اور “فرد” کے ساتھ ان کے تعلق کی نوعیت کو بیان کرتے ہیں تاکہ اس معاملے کی کچھ وضاحت ہو سکے کہ قرآن مجید کے فرد کے ساتھ ریلیٹ کرنے سے درحقیقت کیا مراد ہے، اور کیا توحید، بعث بعد الموت یعنی قیامت، کفار کے احوال اور دنیا وآخرت میں ان کی سزا، انبیاء اور ان کے واقعات اور ایمان والوں کی دنیوی اور اخری جزا، کیا ان سب سے انسانی زندگی کا کوئی تعلق نہیں؟ اور کیا ان سب مضامین کو انسان سے متعلق بنانے کے لئے لازماً معنوی تحریفات کی ہی ضرورت ہے؟

سورۃ الملک بنیادی طور پر اللہ تعالیٰ کے تعارف پر مشتمل ہے، اور اللہ تعالیٰ کے تعارف کا مضمون، خود قرآن مجید کے مضامین میں سب سے اعلی اور سب سے اشرف مضمون ہے۔

اس سورت کا بنیادی دعویٰ یا موضوع، مسئلہ توحید فی البرکات ہے، یعنی ہر قسم کی خیر پہنچانا اور اس کو باقی رکھنا، اور ہر قسم کے شر سے بچانا، یہ اللہ تعالیٰ ہی کا اختیار ہے، اس کے سوا کوئی برکت کا اختیار مند اور مالک نہیں ہے۔ یہ وہی مضمون ہے جس کی جانب اس سے پچھلی سورت، سورۃ التحریم کے اختتام میں اشارہ ہے، کہ نوح اور لوط کی بیویاں باوجود انبیاء کے گھر میں موجود ہونے کے، اور ایمان کے ظاہری اسباب کے وافر مہیا ہونے کے، ایمان سے محروم رہ جاتی ہیں اور دونوں انبیاء بھی ان کو اللہ کے مقابلے میں کوئی فائدہ نہیں دے پاتے، اور فرعون کی بیوی باوجود ایمان کے ظاہری اسباب کے معدوم ہونے کے ایمان کی توفیق سے بھی سرفراز ہو جاتی ہے اور اعلی درجے کی استقامت بھی نصیب ہو جاتی ہے اور مریم تو اولاد کے لیۓ درکار اسباب کے مفقود ہونے کے باوجود، عیسی جیسی اولاد اللہ تعالیٰ کی جانب سے پا لیتی ہیں۔

سورۃ الملک میں اللہ رب العزت نے اس دعویٰ (توحید فی البرکات) کے اثبات پر، یعنی ہر قسم کی خیر پہنچانے اور ہر قسم کے شر سے بچانے پر اکیلا اللہ ہی قادر ہے، متعدد طرح کے دلائل پیش کیۓ ہیں، بعض دلائل کا تعلق آسمانوں کے ساتھ ہے، جن میں آسمانوں کا بے عیب ہونا، ان کی ظاہری زینت کا انتظام، اور ان کی معنوی حفاظت کے انتظام کا تذکرہ کیا، گویا یہ آسمانوں میں رب تعالیٰ کی رکھی ہوئی برکات ہیں۔

پھر زمین کے نرم کر دینے، اور اس میں راستوں کے بنا دینے کو بطور دلیل ذکر کیا، کہ جس کے ذریعے انسان اس زمین سے ہر طرح کی منفعت اور فائدے سمیٹتے ہیں، اس پر تعمیرات بھی کرتے ہیں اور اس کی گود سے ہر قسم کے خزانے بھی نکالتے ہیں، گویا یہ زمین میں رکھی ہوئی اللہ کی برکات ہیں۔

پھر آسمانوں اور زمینوں کے درمیان کی ایک مثال کا تذکرہ کیا کہ کس طرح پرندوں کے لیۓ فضا کو مسخر کیا ہے، اور ان کی منفعت کا انتظام فضاء میں پرواز کے ذریعے اللہ ربّ العزت نے کر رکھا ہے۔ گویا یہ آسمانوں اور زمینوں کے درمیان بھی اللہ رب العزت کی برکات کی مثال ہے۔

آفاقی، سفلی اور وسطی دلائل کے بعد اللہ تعالٰی دلائل انفسی کا ذکر کرتا ہے یعنی خود انسانوں میں اللہ تعالیٰ کی برکات کی مثالیں، انسان کی تخلیق، اس کو سماعت بصارت اور غور وفکر کی نعمتیں دینا اور پھر نسل انسانی کو زمین میں پھیلا دینا۔ گویا یہ سب انسان پر ہونے والی اللہ ربّ العزت کی برکات ہیں۔

اور پھر آخر میں زیر زمین اللہ تعالیٰ کی برکات کی مثال کو بطور دلیل ذکر کیا کہ اللہ رب العزت کی برکات صرف آسمانوں فضاؤں اور زمین پر، اور حضرت انسان کی ذات میں نہیں ہیں بلکہ ان کا سلسلہ تو زمین کی تہہ میں بھی پھیلا ہوا ہے۔

اسی طرح اسی دعویٰ کے اثبات پر اللہ تعالیٰ کی متعدد صفات ذکر کی ہیں جن میں سے نمایاں ترین صفات، صفات علم (اللطیف، الخبیر، علیم بذات الصدور، بکل شئی بصیر) اور صفات قدرت اور غلبہ ہیں (العزیز، بیدہ الملک، علی کل شئی قدیر وغیرہ) ۔ کیونکہ ان دونوں صفات کے ذریعے ہی اللہ تعالیٰ کے نفع ونقصان پر تنہا قادر ہونا ثابت ہوتا ہے۔ اگر علم کامل نہ ہو تو نفع اور نقصان کی معرفت نہیں ہو گی اور کس کو کس وقت کس نفع سے نوازنا ہے اور کس کو کس نقصان سے بچانا ہے، یہ کیسے ممکن ہو گا، اور اگر قدرت اور غلبہ کامل نہیں ہو گا تو صرف کامل علم سے فائدہ نہیں ہو گا اور نفع کا پہنچانا اور نقصان سے بچا لینا ممکن نہیں ہو سکے گا۔

اسی طرح اس سورت میں اللہ تعالی صفت رحمن کو تین مرتبہ بیان کیا گيا ہے۔ اور اس کی رحمت کے مختلف مظاہر بھی ذکر ہوئے ہیں۔

اسی طرح یہ سورت اس بنیادی دعوے (مسئلہ توحید) کے حوالے سے لوگوں کے دو گروہوں کا تذکرہ بھی کرتی ہے، ایک وہ جو اس دعوی کو تسلیم کر لیں اور ایک وہ جو اس دعوی سے منکر ہوں، پھر دنیا میں ان دونوں گروہوں کی مثال کو ذکر کرتی ہے کہ ایک شخص گویا یوں جھک کر چلنے والا ہے کہ اس کو کچھ دکھائی نہیں دیتا کہ کس راستے پر چلا جا رہا ہے اور اس کا قدم کس جگہ پڑ رہا ہے، اور دوسرا شخص پوری قامت سے سیدھا کھڑا ہے اور اس کے سامنے اس کا راستہ بالکل واضح اور روشن ہے۔

پھر ان دونوں گروہوں کے اخروی انجام کا بھی تذکرہ اسی سورت میں موجود ہے کہ ایک کے لئے (عذاب جھنم) اور ایک کے لئے (مغفرۃ واجر کبیر) ہے۔

اسی سورت میں ھدایت کے اسباب کی طرف بھی اشارہ ہے، (نسمع او نعقل)، کفار اور منکرین توحید سے مکالمے اور دعوت کے اسلوب کا بھی تذکرہ ہے۔

اسی طرح یہ سورت قیامت کے وقوع پر بھی عقلی دلائل سے استدلال کرتی ہے کہ جس نے تمہیں پہلی مرتبہ تخلیق کیا وہ تمہیں دوبارہ بھی جمع کرنے پر قادر ہے۔

اب ذرا ان تمام باتوں پر غور کیجیۓ، کیا ان معانی کا دل میں راسخ ہو جانا، انسان کا اس بات پر یقین کا پختہ ہو جانا کہ نفع ونقصان کا تنہا مالک اللہ ربّ العزت ہے، ہر قسم کی برکات اور خیرات اسی کے اختیار میں ہیں، اور وہ انتہائی باریک بین، کامل علم والا، بھی ہے، غالب قدرت والا اور زبردست بھی ہے، وہ رحمن بھی ہے جس کی رحمت کی وجہ سے یہ سارا نظام کائنات جاری وساری ہے، کیا انسان کو اس کی روز مرہ زندگی میں یہ ایمان اور یقین فائدہ نہیں دے گا؟

کیا اللہ تعالیٰ کی درست معرفت سے انسان “ریلیٹ” نہیں کر سکتا، اور کیا “ریلیٹ ایبلٹی” کے لیۓ لازماً قرآن مجید کے معانی کو توڑنا مروڑنا ہی ضروری ہے؟

کیا مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے کے عقیدے کی مضبوطی کا انسانی زندگی کے معاملات سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے؟

کیا اہل کفر کے دنیوی اور اخروی انجام کو پڑھ کر انسان میں کفر سے خوف اور ایمان کی نعمت کی قدر دانی کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا؟

کیا ایمان والوں کی دنیوی اور اخروی جزاء کو جان کر انسان کے اندر ایمان کی محبت اور اس کے چھن جانے سے خوف کا جذبہ بیدار نہیں ہوتا؟

یہ مذکورہ اور اس طرح کے دیگر بہت سے مقاصد، یہ ہیں وہ جن کا قران مجید اپنے پڑھنے والے سے تقاضا کرتا ہے، مگر چونکہ ان کا تعلق براہ راست “میری لائف کی پرابلمز” سے کیسے ہے، یہ مجھے سمجھ نہیں آتا، اور میری فکر میں مرکزیت ہی “لا‏‏ئف پرابلمز” ہیں، اسی ل‏یۓ مجھے تو وہی “تفسیر” بھاتی ہے جس میں ہر قسم کی آیات کو “میری زندگی کے مسائل” سے جوڑا جائے، ورنہ میں قران سے “ریلیٹ” ہی نہیں کر سکتا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔

سو اے قران مجید کے مخلص طالب علم، قرآن مجید کے معانی اور مقاصد بغیر کسی تحریف کے انسان کی دنیا اور آخرت کی ہر ضرورت اور حاجت سے کفایت کرتے ہیں اور قرآن مجید کو “فال نکالنے والی کتاب” سمجھ کر برتنے والے دراصل خود قرآن کی قدر وقیمت سے بھی ناواقف ہیں اور اس کے معانی اور مقاصد سے بھی پردے میں ہیں۔ اس لئے اللہ کی کتاب کو اس کے جاننے والوں سے سیکھیۓ اور ایسے لوگوں سے خبردار رہیں جو قران مجید سے جوڑنے کے نام پر لوگوں کو کسی اور ہی چیز سے جوڑ رہے ہیں۔

( سورۃ الملک کے مقاصد اور معارف اس سے کہیں زیادہ وسیع اور پھیلے ہوئے ہیں جن کی طرف سرسری سا اشارہ پوسٹ میں کیا ہے، یہاں سورت کے معانی اور مضامین کا تفصیل کے ساتھ بیان مقصود نہیں تھا )

سید عبداللہ طارق

یہ بھی پڑھیں: حدیث جبریل سے مستنبط طلب علم کے آداب