سوال (4631)
قرآن اصل ہے اور حدیث کو پرکھنے کا ذریعہ بھی قرآن ہے، جو حدیث قرآن کے خلاف ہوئی وہ نہیں مانی جائے گی، یہ کن لوگوں کا نظریہ ہے، نماز معراج کے موقع پر ملی کہتے ہیں یہ بات کیسے درست ہو سکتی ہے حالانکہ پہلے نماز پڑھی جاتی تھی، قرآن باقی انبیاء کے معجزات بیان کرتا ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نہیں کرتا، کفار آپ سے معجزہ کا مطالبہ کرتے ہیں آپ نہیں لا رہے، پھر حدیث میں معجزات کیسے آ گے؟
جواب
یہ لوگ منکرین اسلام، منکرین حدیث جو درحقیقت منکرین قرآن ہیں ایسے لوگوں کی طرف توجہ نہیں کرنی چاہیے ورنہ سواے گمراہی کے کچھ نہیں ملے گا، یہ اپنے دعویٰ کے مطابق قرآن کریم سے ان نمازوں کا ذکر بتائیں جو مکہ میں پڑھی جاتی تھیں، کیا قرآن کریم نے کفار کے مطالبے کے علاوہ معجزات کے ظاہر ہونے کی نفی کی ہے؟ سب سے پہلے منکرین حدیث سے یہ پوچھیں کہ وہ قرآن کی وہ آیت پیش کریں جس میں یہ لکھا ہوا ہے کہ حدیث رسول صلی الله علیہ وسلم حجت نہیں صرف قرآن ہی حجت ہے، باقی باتیں بعد کی ہیں۔
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ
اہل سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ قرآن مجید کو سمجھنے کے لیے حدیث اور سنت بنیاد ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قول و فعل کو سنت اور حدیث کہتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بیان کرنے سے صحابہ کرام کو پتا چل جاتا تھا کہ کیا نازل ہوا ہے، جو لوگ کہتے ہیں کہ اس حدیث کو مانیں گے جو قرآن کے خلاف نہ ہو، قرآن کے عین مطابق ہو، ظاہر سی بات ہے کہ آپ نے حدیث پر کوئی احسان نہیں کیا ہے، آپ نے قرآن کو مانا ہے، ان کا یہ نقظہ نظر خود ساختہ ہے، اس کے پیچھے کوئی دلیل ہے، یہ غامدی ازم اور پرویزیت کے لوگ ہیں، قرآن کو معیار بنا کر حدیث کا انکار کرنا یہ ان کا خود ساختہ نظریہ ہے، اس کی قرآن مجید میں کوئی دلیل ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
“وَ مَاۤ اٰتٰٮكُمُ الرَّسُوۡلُ فَخُذُوْهُ وَمَا نَهٰٮكُمۡ عَنۡهُ فَانْتَهُوۡا” [الحشر: 7]
«اور رسول تمھیں جو کچھ دے تو وہ لے لو اور جس سے تمھیں روک دے تو رک جاؤ»
جس کا رسول اثبات کرے اس کو اثبات کرو، جس کا انکار کرے، اس کا انکار کرو، انہوں نے اس نظریہ کے لیے جھوٹی حدیث پیش کی ہے، میری بات کو قرآن پر پیش کرو، قرآن کی موافق ہو تو اس کو لے لو، یہ جھوٹی روایت پیش کی گئی ہے، صحابہ کہتے ہیں کہ ہم نے قرآن سے پہلے ایمان سیکھ لیا تھا، مکہ میں تیرہ سال وضوء کرتے رہے، اس کے بعد مدینہ میں سورۃ المائدہ میں حکم نازل ہوا تھا، مکہ میں جو وضوء کرتے تھے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کے مطابق تھا، یہ دین تھا، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات حرف آخر ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
سائل: کیا حدیث اور سنت میں فرق ہے، جو لوگ فرق کرتے ہیں وہ کس نظریہ کے لوگ ہیں؟
جواب: معجزات پیغمبر کے ہاتھ میں نہیں ہوتے ہیں، اللہ رب العالمین کی طرف سے صادر ہوتے ہیں، شق قمر اور معراج بھی معجزات میں سے ہیں، یہ ہے کہ قرآن مجید نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات کا مختصر تذکرہ کیا ہے، حدیث مبارکہ میں زیادہ ہیں، یہ خود ساختہ بنیاد ہے کہ قرآن مجید پر حدیثیں پرکھی جائیں گی، بہت سے انبیاء ایسے ہیں، جن کو اللہ تعالیٰ نے کتاب ہی نہیں دی ہے تو ان کی باتوں کو کہاں پرکھا جاتا تھا، یوسف، یقعوب اور اسحاق علیھم السلام وغیرہ ہیں، سوال یہ ہے کہ ان کی حدیثوں کو کہاں پرکھا جاتا تھا، اور تولا جاتا تھا، ظاہر سی بات ہے کہ پیغمبر کی اپنی بات اللہ تعالیٰ کی وحی ہے، ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات بھی اللہ تعالیٰ کی وحی ہے، سنت اور حدیث کے اندر فرق یہ مسئلہ قادیانیوں اٹھایا تھا، جیسا کہ حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ نے اپنے مقالات میں ذکر کیا ہے، پھر احناف نے حدیث اور سنت میں فرق کیا ہے، حالانکہ سرفراز صفر نے راہ سنت میں سنت اور حدیث کو ایک ہی کہا ہے، سنن اربعہ میں کیا ہیں، احکام پر مشتمل احادیث تو ہیں۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ