سوال (632)

قرآن مجید کے اردو تراجم آپ کی نظر میں کن مترجمین کے ایسے ہیں جنہوں نے اردو اور عربی قواعد کا خیال رکھتے ہوئے ترجمہ کیا ہو ؟ یا آپ عموماً خود کن تراجم قرآن سے استفادہ کرتے ہیں؟

جواب

اردو تراجم قرآن پر اب تو باقاعدہ مقالے وغیرہ لکھے جا چکے ہیں، جن میں ان کا تفصیلی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
میں طالبعلمی دور سے لیکر اب تک جن تراجم قرآن کو دیکھتا ہوں، وہ مولانا محمد جونا گڑھی کا ترجمہ جو تفسیر احسن البیان میں بھی موجود ہے۔ اسی طرح مولانا عبد الرحمن کیلانی صاحب کا ترجمہ جو ان کی تفسیر تیسیر القرآن کے ساتھ موجود ہے۔ اس کے بعد اب حافظ عبد السلام بھٹوی رحمہ اللہ کا ترجمہ تدریسی اور فنی حوالے سے کافی و شافی ہے، اگرچہ بعض مقامات پر بامحاورہ سے زیادہ لفظی ہے، کیونکہ ان کا منہج یہ تھا کہ قرآن کے جتنے الفاظ ہیں ترجمے میں اسی قدر الفاظ کا ہونا ضروری ہے۔ لیکن پھر بھی یہ ترجمہ بہت حد تک عام فہم بھی ہے۔
ضرورت پڑنے پر مولانا مودودی مرحوم، مولانا تقی عثمانی صاحب اور طاہر القادری صاحب کے تراجم بھی دیکھتا ہوں، قادری صاحب کے ترجمہ کو دیکھ کر محسوس ہوتا ہے کہ انہوں نے مولانا مودودی کے ترجمے کو اصل بنا کر اس میں کمی بیشی اور بریکٹس وغیرہ کا اضافہ کیا ہوا ہے۔
جہاں تک یہ بات ہے کہ کن مترجمین نے اردو اور عربی قواعد کا لحاظ رکھتے ہوئے ترجمہ کیا ہے، تو ہر ترجمے کا بنیادی اصول یہی ہوتا ہے کہ جس زبان سے جس زبان میں ترجمہ کرنا مقصود ہے، ہر دو زبانوں پر عبور اور ان کے اصول و قواعد پر گرفت ضروری ہے، ورنہ بات کیا سے کیا بن سکتی ہے! یقینا سب مترجمین اس کا خیال رکھتے ہوں گے، باقی وہ کس حد تک اس میں کامیاب ہوئے، یہ ان پر لکھے گئے تحقیقی مقالہ جات کا موضوع ہے۔ قرآن کریم ایک بحر بیکراں ہے، بقول ابن تیمیہ رحمہ اللہ یہ ایسا گھاٹ ہے جس پر ساری دنیا آتی ہے اور اپنی اپنی ضرورت کے مطابق سیراب ہو کر چلی جاتی ہے، ہر ترجمے اور تفسیر کے مقدمے سے معلوم کر لینا چاہیے کہ انہوں نے یہ ترجمہ و تفسیر کس غرض سے تحریر فرمایا ہے، لہذا اس سے اسی باب میں استفادہ کرنا چاہیے۔ اگر کسی کا مقصد عام فہم ترجمہ لکھنا ہے، آپ اس پر یہ اعتراض نہیں کر سکتے کہ اس نے لفظی ترجمے کا خیال نہیں رکھا، یا کسی کا مقصد ہی لفظی ترجمے کا بیان ہے تو آپ کہیں کہ یہ بامحاورہ اور عام فہم نہیں… علی ہذا القیاس!
ایک ہی عبارت اور اسلوب جو پوری دنیا کے لوگوں کے لیے کافی و شافی ہو، یہ خاصہ صرف قرآن کریم اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے، باقی ان کے جتنے تراجم، تفاسیر اور شروحات لکھی جاتی ہیں ان میں یہ خاصیت آ ہی نہیں سکتی!

فضیلۃ العالم خضر حیات حفظہ اللہ

اردو میں قرآن مجید کا سب سے اچھا ترجمہ مولانا فتح محمد جالندھری نے کیا تھا۔ ویسا ترجمہ نہ پہلے کیا گیا، نہ اب تک کیا جا سکا۔ اگر وہ اصل ترجمہ مل جائے تو کیا بات ہے کیونکہ لوگوں نے اس میں متعدد ردو بدل کیے ہوئے ہیں۔

فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ

فتح محمد جالندھری کا اپنا ترجمہ کہیں سے مل جائے تو یہ بھی ایک غور طلب پہلو ہے ، موجودہ ترجمہ جو ہے اس کا ایک آپریشن میرے ہاتھ سے ہو چکا ہے ، میں نے بعض جگہ نوٹ لگائے ہیں ، صحیفہ اہل حدیث میں ایک مضمون “سلفی حضرات کے لیے لمحہ فکریہ” بھی چھپا تھا ، یہاں کراچی میں ہم نے پابندی لگائی ہے ، اگرچہ بہت چل رہا ہے ، سستہ کرکے بیچ رہے ہیں ، فاران اکیڈمی اور دوست فاؤنڈیشن والے اس کے پیچھے ہیں ، اس وقت اس کے پیچھے غامدی ازم کھڑا ہوا ہے ، ہماری مسجدوں میں باقاعدہ بینر لگا کر بیچا گیا ہے اور تقسیم کیا گیا ہے ، تو یہ بھی قابل غور پہلو ہے :
میں تیری دنیا میں رہنے کی مدت پوری کرکے تجھے اٹھا لوں گا ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

شیخ بحیثیت مجموعی اسلوب کے اعتبار سے بات ہو رہی تھی ورنہ ملاحظات اس میں اور بھی ہیں اور ملاحظات کم و بیش سبھی تراجم میں نکالے جا سکتے ہیں جن میں سے اکثر و بیشتر کا تعلق مختلف تفاسیر کے انتخاب سے ہے۔ترجمہ فتح محمد جالندھری پر شیخ الحدیث عبد الحمید ازہر اور شیخ الحدیث عبد الرشید اظہر نے حواشی رقم فرمائے تھے جو پھر مجھے دیکھنے کےلیے دیے گئے۔
وہ ترجمہ اب حواشی کے ساتھ چھپ گیا ہے۔ اس میں ترجمے کے جن پہلوؤں پر اعتراضات لکھے گئے تھے، ان میں کہیں مترجم کی رائے درست تھی اور کہیں محشی کی۔ زیادہ تر ملاحظات کا تعلق تفاسیر کے درمیان انتخاب سے تھا۔

فضیلۃ العالم حافظ قمر حسن حفظہ اللہ

جی شیخ اچھا ہے ، شیخ کا یہ کام میرے نظر نہیں گزرا ہے ، لیکن میں نے بات کی ہے کہ جالندھری صاحب کا اصل ترجمہ نظر آنا چاہیے کہ وہ خود کیا تھے ، یہ بھی جاننا ضروری ہے ۔ کتاب سے متاثر ہونا کیا ہے ، شخصیات کو دیکھا چائے کہ اکابر و اصاغر کون ہیں ، اساتذہ کون ہیں ، منھج کیا ہے ۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

یہ ترجمہ بھی مختصر اور فصیح و بلیغ انداز میں ہے۔

“إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ”

«ہم تیری ہی بندگی کرتے اور تجھی سے مدد چاہتے ہیں»
قرآن کا یہ احسان ہے ساری دنیائے انسانیت پر کہ اس نے بندہ و خدا کے درمیان جتنے پردے حائل تھے چاک کر دیے ، اب ہر شخص براہ راست اسے پکار سکتا ہے ، نہ عبادت کے لئے کسی وسیلے کی ضرورت ہے نہ استعانت کے لئے کسی شفیع کی حاجت۔
[ترجمہ و تفسیر سراج البیان مولانا محمد حنیف ندوی رحمہ اللہ]

فضیلۃ الباحث مرتضی ساجد حفظہ اللہ