سوال (5369)

قرآن مجید میں حضرت یونس علیہ السلام کی دعا مذکور ہے:

لَا إِلٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ (الأنبیاء: 87)

یہ دعا واحد صیغے میں ہے: “إِنِّي كُنتُ” یعنی: میں ظالموں میں سے تھا، لیکن بعض حضرات اجتماعی دعا کرتے ہوئے اس کو جمع کے صیغے میں پڑھتے ہیں:

إِنَّا كُنَّا مِنَ الظَّالِمِينَ،

یعنی: ہم ظالموں میں سے تھے۔
کیا قرآنی آیات میں وارد دعاؤں کو جمع کے صیغے میں بدل کر پڑھنا جائز ہے؟ اور اگر یہ دعا قرآن کی آیت بھی ہے تو کیا ہمیں صرف وہی الفاظ استعمال کرنے چاہئیں جو قرآن میں وارد ہوئے ہیں؟ یا اجتماعی دعا میں صیغے کی تبدیلی جائز ہے؟ برائے مہربانی وضاحت فرما دیں کہ اس قسم کی تبدیلی قرآن کے ادب و احترام کے خلاف تو نہیں؟ اور اس بارے اہل علم کا راجح قول کیا ہے؟

جواب

دیکھیں، جب کسی آیت کو بطورِ دعا لیا جاتا ہے تو اس کا حکم بدل جاتا ہے۔ جیسے کہ قبرستان میں صحیح روایات کی روشنی میں قرآن مجید کی تلاوت نہیں کرنی چاہیے، لیکن اگر کوئی قبر پر کھڑے ہو کر دعا کرے، مثلاً:

رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا، رَبَّنَا آتِنَا، رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ.

تو ایسی دعائیں کر سکتا ہے، کیونکہ وہ بطور دعا کے کر رہا ہے۔
اسی طرح سجدے میں قرآن کی تلاوت منع ہے، لیکن اگر کوئی دعا جو قرآن میں ہے وہ پڑھنا چاہے، تو بطور دعا وہ پڑھ سکتا ہے۔ رکوع و سجدہ میں تلاوت منع ہے، لیکن اگر دعا کے طور پر پڑھنا چاہے، تو وہ جائز ہے۔
اسی طرح اگر دعا کراتے ہوئے صیغہ واحد کو صیغہ جمع میں بدل دے، یا صیغہ جمع کو صیغہ واحد بنا لے، تو اگر یہ دعا کے طور پر ہو رہا ہے، تو ان شاء اللہ اس میں کوئی قباحت نہیں ہے اور یہ جائز ہے۔

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ