قرآن میں بیان کی گئی سخت ترین مثال:

اللہ تعالی نے سورہ اعراف میں انتہائی سخت الفاظ کے ساتھ ایک مثال بیان کی ہے۔ اللہ تعالی فرماتے ہیں:

وَاتْلُ عَلَيْهِمْ نَبَأَ الَّذِي آتَيْنَاهُ آيَاتِنَا فَانسَلَخَ مِنْهَا فَأَتْبَعَهُ الشَّيْطَانُ فَكَانَ مِنَ الْغَاوِينَ○

اور ان لوگوں کو اس شخص کا حال پڑھ کر سنایئے کہ جس کو ہم نے اپنی آیتیں دیں پھر وہ ان سے نکل گیا، پھر شیطان اس کے پیچھے لگ گیا سو وہ گمراہ لوگوں میں شامل ہوگی.

وَلَوْ شِئْنَا لَرَفَعْنَاهُ بِهَا وَلَٰكِنَّهُ أَخْلَدَ إِلَى الْأَرْضِ وَاتَّبَعَ هَوَاهُ ۚ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ الْكَلْبِ إِن تَحْمِلْ عَلَيْهِ يَلْهَثْ أَوْ تَتْرُكْهُ يَلْهَث ۚ ذَّٰلِكَ مَثَلُ الْقَوْمِ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِآيَاتِنَا ۚ فَاقْصُصِ الْقَصَصَ لَعَلَّهُمْ يَتَفَكَّرُونَ○

اگر ہم چاہتے تو اس کو ان آیتوں کی بدولت بلند مرتبہ کردیتے لیکن وہ تو دنیا کی طرف مائل ہوگیا اور اپنی نفسانی خواہش کی پیروی کرنے لگا سو اس کی حالت کتے کی سی ہوگئی کہ اگر تو اس پر حملہ کرے تب بھی وہ ہانپے یا اسکو چھوڑ دے تب بھی ہانپے. یہی حالت ان لوگوں کی ہے جنہوں نے ہماری آیتوں کو جھٹلایا۔ سو آپ اس حال کو بیان کر دیجئے شاید وہ لوگ کچھ سوچیں.
اس آیت کو سمجھنے کے لیے سلف میں سے بعض کی تفسیر ملاحظہ ہو:

1 ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں یہ آیت بنی اسرائیل سے متعلق ایک شخص بلعام بن باعر کے بارے میں ہے جسے علم دیا گیا تھا مگر اس نے دنیا کی شہوات اور لذات اور مال و دولت کو ہی اپنا مسکن پکڑا۔ اور کتاب کے علم میں سے جو اسے دیا گیا تھا اس سے کوئی فائدہ نا اٹھایا۔

2 بعض سلف بیان کرتے ہیں کہ کتے کے ہانپنے سے اس لیے مثال پکڑی گئی ہے کہ عالم کتاب اللہ کی آیات پر عمل نا کرے، اور اس کے مواعظ سے عبرت نا پکڑے تو وہ اسی بندے کی طرح ہے جسے یہ سب عطا نہیں کیا گیا۔ اس لیے اللہ نے فرمایا کہ وہ دونوں صورتوں میں برابر ہی ہے۔ آیات سے وعظ نہیں پکڑتا، ان کے انکار پر مصر رہتا ہے تو اس کی مثال کتے کی سی ہی ہے جو ہر حالت میں ہانپتا ہی رہتا ہے۔

3 مجاہد رحمہ اللہ کہتے ہیں کتے کو چاہے تم اپنی سواری سے روند دو، یا لات مار کے دور کردو وہ ہر حال میں ہانپتا ہی ہے۔ اس کی مثال اس بندے جیسی ہے جو کتاب اللہ پڑھتا پڑھاتا تو ہے مگر عمل ندارد۔
ابن جریج رحمہ اللہ کہتے ہیں: کتا منقطع القلب ہوتا ہے۔ جیسے اس کا دل ہے ہی نہیں۔ اس کو فرق نہیں پڑتا کہ تم اس کے ساتھ کیسا سلوک کر رہے ہو، وہ ہانپتا ہی رہتا ہے۔ اسی طرح جو ہدایت کو پاس آجانے کے بعد بھی اسے چھوڑے رکھے، وہ بھی بے دل اور منقطع القلب ہی ہے۔

4 ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں اس پر حکمت پیش کی جاتی رہتی ہے مگر وہ اعراض ہی برتتا رہتا ہے۔
(1،2،3،4: تفسیر طبری)
یہ مثال اس شخص کے حصے میں آئی جسے اللہ نے دین کا علم دے رکھا تھا مگر اس نے اپنی خواہش نفس اور شہوت کی پیروی کی۔ اللہ کے عطا کردہ نور سے فائدہ اٹھانا اسے اچھا نا لگا۔ اس نے اپنی من مانی ہی کی۔ تو اللہ تعالی نے اسے کتے سے تشبیہ دی کہ جس کو پچکارا جائے، مارا جائے، بھگا دیا جائے جو مرضی کیا جائے، اس کی زبان لٹکی ہی رہتی ہے۔ اسی طرح حامل علم اور نبوت کی میراث کا وارث بھی جب سخت دل ہو جائے تو اس پر آیات کا وعظ، وعید، ڈراوا کوئی چیز اثر نہیں کرتی۔ وہ اپنی ہی دھن میں لگا رہتا۔
ابن رجب رحمہ اللہ نے ایک نہایت شاندار جملہ سلف سے نقل کیا ہے۔ کہتے ہیں:

قال بعضُ السلف: لا يكون أشدّ قسوة من صاحب الكتاب إذا قسا.

کہ جب علم والے کا دل سخت ہوجائے، تو اس سے سخت کوئی چیز نہیں ہو سکتی۔
ذم قسوة القلب ١/‏٢٥٩ — ابن رجب الحنبلي (ت ٧٩٥)
کہ وہ علم اور بصیرت پر ہوتے ہوئے، اپنی پسند سے گمراہی کی طرف گیا ہے۔
اعاذنا اللہ وایاکم من القلب القاسي، وعلم لا ينتفع به.

حافظ نصراللہ جاوید

یہ بھی پڑھیں: یہ لوگ آپس میں کیسے رحم دل تھے