سوال (1398)

آئیے علماء سے مشترکہ سوال کرتے ہیں، وہ یہ کہ فی زمانہ جب احادیث مبارکہ کا ذخیرہ ایک ہی چھت نیچے جمع اور میسر ہے تو کیا فقہ کی اہمیت کم ہو گئی ہے؟

جواب

قرآن، احادیث، فقہ تینوں چیزوں کی حیثیت اپنی جگہ مسلم ہے، کبھی کسی وقت ان میں سے کسی بھی ایک سے مستغنی نہیں ہوا جا سکتا!
کیونکہ قرآن اور حدیث کا درجہ نص، متن اور قانونی دستاویز کا ہے، جبکہ فقہ اس کی تشریح و تفسیر اور عملی تطبیق ہے!
امت نے چودہ صدیوں میں قرآن و حدیث پر عمل کس طرح کیا ہے، اس کی تفصیل فقہی ذخیرے کی صورت میں موجود ہے، فقہ کو معطل کرنے کا مطلب یہ ہے کہ قرآن و حدیث سے اپنا من مانا معنی و مفہوم اخذ کر لیا جائے، جو کہ درست نہیں!
اسی بات کو ایسے بھی کہا جا سکتا ہے کہ بنیادی طور پر ماخذ شریعت چار ہیں: قرآن، حدیث، اجماع اور قیاس.. اجماع اور قیاس کا ذکر نہ قرآن میں ہے نہ حدیث میں… ان چیزوں کا ذکر علماء کی فقہ و فتاوی، تفاسیر قرآن اور شروحاتِ حدیث میں ہی ہے!
اسی بات کو ایک اور انداز بھی کہا جا سکتا ہے کہ جس طرح عربی زبان کو سمجھنے کے لیے کسی دوسری زبان میں ترجمہ کرنے کی ضرورت ہے، اور کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ جب براہ راست قرآن و حدیث موجود ہے تو آپ اس کے تراجم کیون پڑھ رہے ہیں؟ اسی طرح یہ کہنا بھی درست نہیں کہ جب قرآن و احادیث ایک جگہ پر موجود ہیں تو فقہ کی کیا ضرورت ہے؟ کیونکہ فقہ اصل میں قرآن و حدیث سے مسائل اخذ کرنے کا نام ہے، جس طرح ترجمہ کے بغیر اصل عبارت سمجھ نہیں آتی، اسی طرح قانون کی تشریح و تطبیق کے بغیر قانونی دستاویز کا کوئی فائدہ نہیں!
ہمارے ہاں عموما ’فقہ’ کو ’رائے’ کے معنی میں لیا جاتا ہے اور رائے بھی وہ جو نص اور وحی کے مقابلے میں ہوتی ہے، جو کہ واقعتا درست نہیں، بلکہ یہ فقہی اور اصولی قاعدہ ہی ہے کہ نص کے مقابلے میں اجتہاد یعنی رائے کی کوئی گنجائش نہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ فقہ کا مفہوم اس سے بہت مختلف اور وسیع تر ہے، جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا ہے۔

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ