سوال (1851)
قرآنی آیات کا تعویذ گلے میں ڈالنا یا بازو پر باندھنا کیسا ہے؟
جواب
قرآنی تعویذ گلے میں لٹکانا، بازو پہ باندھنا اور گھر میں لٹکانا یہ جائز نہیں ہے۔
(1) پہلی بات یہ ہے کہ قرآنی تعویذ لٹکانے کے حوالے سے جو روایات ہیں، وہ ہائے ثبوت کو نہیں پہنچتی ہیں۔
(2) دوسری بات لٹکانے سے شفاء نہیں ملتی ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“مَنْ تَعَلَّقَ شَيْئًا وُكِلَ إِلَيْهِ” [سنن الترمذي: 2072]
«جس نے کوئی چیز لٹکائی وہ اسی کے سپرد کردیا گیا»
یہ حدیث مطلق ہے یعنی جس نے جو بھی تعویذ لٹکائی تو وہ اسی کے سپرد کردیا گیا ہے۔
(3) اس میں توہین قرآن کا پہلو آجاتا ہے، انسان کبھی کس حالت میں ہے تو کبھی کس حالت ہے۔
(4) اہل بدعت اور اہل شرک کو گنجائشیں مل جاتی ہیں کہ ہم نے بھی اس طرح لٹکایا ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
سائل: شیخ محترم ابن القیم رحمہ اللہ نے ایک عبارت نقل کی ہے۔
“فَكَذَلِكَ الْقَلْبُ إِذَا أَخَذَ الرُّقَى وَالتَّعَاوِيذَ بِقَبُولٍ تَامٍّ، وَكَانَ لِلرَّاقِي نَفْسٌ فَعَّالَةٌ وَهِمَّةٌ مُؤَثِّرَةٌ فِي إِزَالَةِ الدَّاءِ”
اس حوالے سے بھی رہنمائی فرما دیں کہ ان کی اس عبارت سے کیا مراد ہے؟
جواب: صحابہ کرام کے دور سے لے کر آج تک بعض مشائخ اس کے قائل رہے ہیں کہ بامر مجبوری قرآنی تعویذ جائز ہے، بعض اہل علم کی طرف سے قرآنی تعویذ کا جواز ملتا ہے، جس میں امام ابن قیم رحمہ اللہ بھی سر فہرست ہیں، ہمارے جس کو تعویذ کہا جاتا ہے اس کو عربی تعویذ نہیں کہتے ہیں، اس لیے اہل تشیع میں سے ایک عالم نے غلطی بیان کی ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا ہے کہ “علمني يا رسول الله تعويذا” اے اللہ کے رسول مجھے تعویذ سیکھائیں۔
“عوذ يعوذ تعويذا” کا معنی “پناہ دینے کے کلمات” یا “کلمات کے ذریعے سے خود کو پناہ میں دے دینا” ہوتا ہے۔ مندرجہ بالا عبارت جو آپ نے پیش کی ہے اس میں تعویذ پناہ دینے کے معنی میں ہے نہ کہ وہ معنی ہے جو ہم استعمال کرتے ہیں۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
تعاویز سے ایسے کلمات جن سے دم کیا جاتا ہے، حفاظت میں آیا جاتا ہے، مراد لٹکانے کی چیز نہیں ہے۔ واللہ اعلم
کتاب التوحید میں ابراھیم النخعی کا قول ہے کہ سلف قرآنی تعویذ کو بھی ناپسند کرتے تھے واللہ اعلم۔
سد ذرائع کی قبیل سے بھی یہی ہے کہ ان تعویذات سے جو عموماً باندھے یا لٹکائے جاتے ہیں بچا جائے۔
فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ
سوال: بازو یا گلے میں تعویذ لٹکانا کیسا ہے؟ بعض کہتے ہیں جائز ہیں۔
جواب: تمام تعویذ اور تمیمہ جن کو نفع و نقصان کے عقیدہ کے ساتھ لٹکایا جائے وہ جائز نہیں ہے، خواہ جانور کے گلے میں ہو، پاؤں میں ہو، ہاتھ میں ہو، انسان کے گلے میں ہو، کسی بھی صورت میں یہ جائز نہیں ہے، راجح ترین موقف یہ ہے کہ اس طرح کی کوئی چیز لٹکانا جائز نہیں ہے، یہ توکل کے منافی ہے، حدیث میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو اسی کے حوالے کر دیتا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ اس سے بری ہو جاتا ہے، راجح قول کے مطابق اس طرح کی کوئی بھی چیز جائز نہیں ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
تعویذ بنیادی طور پر دو طرح کے ہوتے ہیں.
1. جس میں قرآن پاک کی آیات لکھ کر گلے میں ڈالی جاتی ہیں۔
2. جس میں قرآن پاک کے علاوہ کوئی اور الفاظ تحریر ہوتے ہیں جیسا کہ گنتی ,مجہول قسم کے الفاظ وغیرہ.
قرآن پاک کی آیات والے تعویذ لٹکانے /گلے میں پہننے کا حکم:
قرآن پاک کی آیات لکھ کر گلے میں لٹکانا پورے ذخیرہ احادیث میں کسی ایک حدیث سے بھی ثابت نہیں ہے. یہ بالکل ناجائز عمل ہے. ایسا کرنے والا گناہ گار ہوگا, کیونکہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے طریقہ سے ہٹ کر ایک خود ساختہ عمل کا ارتکاب کیا. اس لیے یہ ایک ناجائز ,غیر مسنون اور باطل عمل ہے. لیکن ایسا کرنے والے کو گناہ گار تو ضرور کہ سکتے ہیں مگر مشرک نہیں کہ سکتے. کیونکہ وہ قرآن سے پناہ حاصل کررہا, جو کہ اللہ کی مخلوق نہیں بلکہ اللہ کی کلام ہے. لیکن لٹکانے والا طریقہ سنت سے ثابت نہیں اس لیے جائز نہیں.
قرآن پاک کے علاوہ مجہول الفاظ پر مشتمل تعویذ پہننے کا حکم:
قرآن پاک کی آیات کے علاوہ جس نے بھی کوئی چیز
شفاء حفاظت وغیرہ کی نیت سے لٹکائی تو نا صرف وہ گناہ گار ہوگا بلکہ اس نے شرک بھی کیا.
[مسنداحمد: 17422]
مَنْ عَلَّقَ تَمِيمَةً فَقَدْ أَشْرَكَ.
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے تعویذ(تمیمہ) لٹکایا اس نے شرک کیا۔
اس کی سند حسن ہے.
اس لیے ایسا تعویذ لٹکانا حرام اور شرک ہے.
شرعی حکم:
تعویذ خواہ قرآن پاک کی آیات پر مشتمل ہو یا مجہول الفاظ گنتی وغیرہ پر دونوں طرح بالکل ناجائز اور باطل ہے۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فضیلۃ الباحث ابو زرعہ احمد بن احتشام حفظہ اللہ
سائل: کچھ اہل حدیث کہتے ہیں کہ قرآن کی آیات لکھی یو تو کچھ گنجائش نکلتی ہے؟
جواب: جی ہاں، بعض علماء قرآنی تعویذ لکھ کر دینے کے قائل ہیں، ان کا قول مرجوح ہے، بہتر ہے کہ اس سے بھی بندہ اجتناب کرے، علماء نے وجوہات بھی ذکر کی ہیں، سب سے پہلی بات یہ ہے کہ کوئی بھی چیز صحیح سند سے ثابت نہیں ہے، ہر حال میں قرآن مجید گلے میں لٹکانا یہ توہین آمیز پہلو ہے، اس سے نہ چاہتے ہوئے بھی عقیدے میں کمزوری آ جاتی ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ