ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے قبیلے کے سردار کو فاتحہ پڑھ کر دم کیا تو اس کے جسم سے زہر کا اثر زائل ہوگیا۔ایک دوسرے صحابی نے ایک پاگل شخص کہ جو زنجیروں میں بندھا ہوا تھاکو فاتحہ پڑھ کر دم کیا تو وہ بالکل تندرست ہوگیا۔
سورۃ البقرۃ کی تلاوت سے جہاں شیطان گھر سے بھاگ جاتا ہے وہیں پرجو شخص اس سورت کی آخری دو آیات کو رات کے وقت پڑھتا ہے تو یہ اس کے لئے کافی ہوجاتی ہیں۔
آیت الکرسی پڑھنے سے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک محافظ فرشتے کو مقرر کیا جاتا ہے جس کے بعد صبح تک شیطان انسان کے قریب نہیں آسکتا ہے۔
اسی طرح آخری تین قل پڑھنے سے ہر قسم کی بیماری ٹھیک ہوجاتی ہے اور یہ سورتیں اپنے پڑھنے والے کے لئے کافی ہوجاتی ہیں۔
ایسا کیوں نہ ہو جبکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ہی قرآن کے متعلق فرمایا ہے:
قُلْ هُوَ لِلَّذِينَ آمَنُوا هُدًى وَشِفَاءٌ
“کہہ دو یہ (قرآن)ان لوگوں کے لئے جو ایمان لائے ہدایت اور شفا ہے”۔(حم سجدۃ:44)
مزید فرمایا:
وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْآنِ مَا هُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِينَ
“اور ہم قرآن میں سے تھوڑا تھوڑا نازل کرتے ہیں جو ایمان والوں کے لئے سراسر شفا اور رحمت ہے “۔(الاسراء:82)
امام رازی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
جب ان کے بیٹے کا انتقال ہوا تو وہ بہت غمگین ہوئے۔ لوگ ان کے پاس تعزیت کے لئے آتے رہے۔ پھر وہ اپنی تفسیر کی طرف متوجہ ہوئے وہاں انہیں ایک آیت نظر آئی” انما اشکو بثی و حزنی الی اللہ “۔کہتے ہیں: اللہ کی قسم! جو تسلی مجھے یہ آیت دہرانے سے ملی اس طرح کی تسلی مجھے کسی چیز سے نہیں ملی۔
امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
قرآن کے انسان کے ساتھ کچھ مقامات ہوتے ہیں۔کبھی ایسا ہوتا ہے کہ آپ نمازپڑھ رہے ہوتے ہیں یا ویسے ہی قران کی تلاوت کررہے ہوتے ہیں ۔حالت یہ ہوتی ہے کہ آپ کسی مخصوص کیفیت میں ہوتے ہیں غم ،خوشی، آسودگی یا غربت وغیرہ اس وقت آپ کے سامنے ایک آیت آتی ہے جو آپ کو اس کیفیت سے نکالنے میں مددگار ثابت ہوتی ہے وہ آپ کا علاج کرتی ہے۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ آپ جب کبھی ایسی کیفیت سے گزریں تو اس آیت کو بار بار پڑھتے رہیں۔ کیونکہ یہ آپ کے لئے سب سے نفع بخش علاج ثابت ہوتا ہے۔
اسی طرح امام ابن قیم رحمہ اللہ اپنی کتاب زاد المعاد میں مزید فرماتے ہیں:
قرآنِ کریم تمام قلبی و جسمانی اور دنیاوی و اُخروی بیماریوں کے لیے شفا ہے، مگر ہر شخص کو قرآن سے شفا حاصل کرنے کی توفیق نہیں ملتی۔ اگر کوئی بیمار قاعدے سے سچائی و ایمان داری، مکمل قبولیت اور پختہ یقین اور شرائط کی ادائیگی کے ساتھ اس کے ذریعے اپنا علاج کرے تو بیماری اس پر غالب نہیں آسکتی۔بیماری آسمان و زمین کے رب کے کلام پر کیسے غالب آسکتی ہے جس کو اگر پہاڑ پر اُتارا جاتا تو وہ پھٹ جاتا اور زمین پر نازل کیا جاتا تو وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتی۔ تو کوئی بھی قلبی یا جسمانی بیماری ایسی نہیں جس کے بارے میں قرآن میں اس کے علاج اور طریقوں کے اسباب اور محافظت کی طرف رہنمائی نہ کی گئی ہو۔ مگر جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب کو سمجھنے کی توفیق دی ہو۔ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں قلبی اور جسمانی بیماریوں کے علاج کا تذکرہ کیا ہے۔
درج بالا دلائل کی روشنی میں جہاں ایک طرف یہ بات واضح ہوتی ہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کے لئے شفا رکھی ہے۔انسان اس کے ذریعے شیطان سے محفوظ رہتا ہے اس کے ساتھ ساتھ وہ مختلف مسائل سے نجات بھی حاصل کرتا ہے۔دوسری طرف یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آج کا مسلمان قرآن سے اس قدر یقینی شفا کیوں حاصل نہیں کرپاتا؟
امام ابن قیم رحمہ اللہ نے اپنی کتاب “الداء الدواء” میں اس کے پیچھے چند اسباب ذکر فرمائے ہیں جو کہ درج ذیل ہیں:
اول:قرآن پڑھنے والے کی تاثیر میں کمزوری ہوتی ہے۔ اس کی وجہ پڑھنے والے کی یقین میں کمی ہوتی ہے یا وہ دم کرتے وقت اپنا دل اللہ تعالیٰ کی طرف پوری طرح متوجہ نہیں کرپاتا ہے۔
دوم: بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ جسے دم کیا جاتا ہےاس میں دم کی تاثیر قبول کرنے کی صلاحیت نہیں ہوتی۔اس کےپیچھے وہی وجوہات کار فرما ہے جو قرآن پڑھنے والے کی تاثیر میں کمزوری کا سبب بنتے ہیں۔
سوم: کوئی ایسی خارجی شدید رکاوٹ جو دم کی تاثیر کو روک رہی ہوتی ہے۔جیسے دم کرنے اور کروانے والے کا اللہ تعالیٰ کی نافرمانی میں مگن رہنا ، ان کے دلوں کا گناہوں سے میلا ہونا یا ان کے رزق میں حرام کی آمیزش ہونا وغیرہ۔
یاد رکھیں طبیعت جس درجہ دوا کے اثر کو قبول کرے گی اس درجہ مرض کی شدت کم ہوگی اور جسم کو فائدہ پہنچے گا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ آج بھی اگر کوئی مسلمان قرآن کریم کو شرائط کے مطابق شفا کے لئے پڑھے تو یقیناً یہ قرآن اس کے ہر مرض و مسئلے کے لئے شافی و کافی ہوگا۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید کو ہم سب کے لئے ہدایت، رحمت اور شفا کا ذریعہ بنائے آمین یا رب العالمین۔

شعیب محمود سلفی