تصویر میں جرمنی کے شہر برلن کے سینٹرل سٹیشن میں نصب کیے گئے چار پانچ منزلہ عمارت کے برابر اونچے کرسمس ٹری کو دیکھا جا سکتا ہے۔ صرف اس ایک کرسمس درخت کو نصب کرنے کی لاگت ہر سال ہزاروں یوروز ہوتی ہے۔ ہر سال نہ صرف اس سٹیشن میں، نہ صرف جرمنی کے تمام بڑے سٹیشنز پر، بلکہ سارے عالمِ کفر کے سینکڑوں ہزاروں شہروں اور قصبوں میں تقریباً تمام نمایاں پبلک اور پرائیویٹ عمارات پر ایسے کرسمس درختوں اور دیگر سجاوٹ کی تنصیب کی جاتی ہے، جن کی مالیت اربوں کے اربوں ڈالر میں ہوتی ہے۔
مسلمان جو عید کے موقع پر حلال جانوروں کی قربانی دیتے ہیں، ان کا گوشت کروڑوں مساکین کو کھانے کو ملتا ہے۔ جبکہ ان کرسمس درختوں سے کونسا “پھل” یا “سبزی” کھانے کو ملتی ہے؟ کھے کھانے کو ملتی ہے۔۔۔ کیونکہ یہ درخت تو کاشت ہو کر ناپید ہو جاتے ہیں، لیکن ان پر لگائی گئی ڈیکوریشن دنیا میں ہر سال لاکھو ں ٹن کوڑے کا اضافہ کرتی ہے۔
صرف ایک سال میں کرسمس پر جتنا پیسہ برباد کیا جاتا ہے، مسلمان دس سال بھی عید پر قربانیاں کرتے رہیں تو اتنا پیسہ خرچ نہیں ہوتا۔
مزید پڑھیں: یہ تالیف قلبی نہیں ہے
اس سے قبل کہ کوئی اس بات پر یہ سوچنا شروع ہو جائے کہ کرسمس پر برباد کیے گئے اربوں ڈالرز سے بھی تو غریبوں کے لیے واٹر کولرز اور ان کی بیٹیوں کے لیے جہیز خریدے جا سکتے تھے؟
ہم ان نیک خیال دوستوں کو بتا دیں کہ عالمِ کفر مسلمانوں پر جو بم اور میزائل برساتا ہے، ان کی مالیت کرسمس کے خرچے سے بھی کہیں زیادہ ہوتی ہے۔
وہ پڑی ہے انسانیت کی گلی سڑی لاش۔۔۔۔ بیچ مغربی چوراہے کے۔۔۔ اسی لاش پر ہی تو بھنگڑے ڈالے جا رہے ہیں۔
یعنی جن مساکین کو
“our democracies, our freedom, our values”
کے نام پر چیر پھاڑ کر اور ان پر فاسفورس کی آگ برسا کر ان کو زندہ جلا کر مغرب شادیانے بجاتا ہے۔۔۔ آپ ا سی مغرب سے کرسمس پر فضول خرچی کی جگہ ان ہی مساکین کے لیے واٹر کولرز اور مساکین کی بیٹیوں کی شادیوں کا مطالبہ کرنے لگے تھے؟ہے کوئی کرنے والی بات؟ سوچیں وی ناں !
تحریر: Usman EM