قارئین کرام ! قربانی کے ایام ہیں ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ قربانی کرنے سے قبل اس کی احکام و مسائل کو اچھی طرح سمجھ لے ، تاکہ اس کی قربانی سنت کی مطابق ادا ہوکر اس کے لیے باعث اجر و ثواب بنے ۔
اس حوالے سے ذیل میں قربانی کے بعض ضروری احکام پیش خدمت ہیں ۔
1 کیا قربانی کے جانور پر سواری کی جا سکتی ہے ؟
بوقت ضرورت قربانی کے جانور پر سواری کی جا سکتی ہے کوئی حرج نہیں ۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو قربانی کا جانور لے جاتے ہوئے دیکھا تو فرمایا : اس پر سوار ہوجا ۔
اس شخص نے کہا : یہ قربانی کا جانور ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اس پر سوار ہو جا ۔ اس نے کہا : یہ قربانی کا جانور ہے ۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا :
ارْكَبْهَا، وَيْلَكَ فِي الثَّالِثَةِ أَوْ فِي الثَّانِيَةِ .
افسوس! سوار ہو جا ۔ «ويلك» آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ) دوسری یا تیسری مرتبہ فرمایا۔
(صحيح بخاري : 1689)
2 اس شخص پر کیا فدیہ ہے جس نے قربانے کے ارادے کے باوجود بال یا ناخن کاٹ دیے ؟
سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
مَنْ كَانَ لَهُ ذِبْحٌ يَذْبَحُهُ فَإِذَا أُهِلَّ هِلَالُ ذِي الْحِجَّةِ فَلَا يَأْخُذَنَّ مِنْ شَعْرِهِ وَلَا مِنْ أَظْفَارِهِ شَيْئًا حَتَّى يُضَحِّيَ .
جس شخص کے پاس قربانی کا جانور موجود ہو تو وہ ذوالحجہ کا چاند طلوع ہونے سے لیکر قربانی کرنے تک اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے ۔
(صحیح مسلم : 1977)
اگر کوئی شخص اس حکم کی مخالفت کرتے ہوئے بال یا ناخن کاٹ لے تو وہ گنہگار ہوگا ، لیکن اس پر کوئی فدیہ نہیں ہے ۔
ابن قدامہ حنبلی بیان کرتے ہیں :
إذا ثبت هذا ، فإنه يترك قطع الشعر وتقليم الأظفار ، فإن فعل استغفرالله تعالي . ولا فدية فيه إجماعا ، سواء فعله عمدا أو نسيا .
جب (عشرہ ذی الحجہ میں بال اور ناخن کاٹنے کی حرمت) ثابت ہو چکی ہے تو قربانی کرنے والے کو اس امر سے باز رہنا چاہیے ۔ پھر اگر وہ اس کا مرتکب ہوتا ہے تو اسے اللہ تعالی سے استغفار کرنا چاہیے اور اس (گناہ کے ارتکاب پر) بالاجماع اس پر کوئی فدیہ نہیں ہے ، خواہ اس نے یہ کام قصداً کیا ہو یا بھول
کر ۔
(المغنی : 437/9)
3 کیا قربانی میں شامل پورے گھر کے افراد ناخن اور بال نہ کاٹیں ؟
یہ حدیث (جس میں بال اور ناخن کاٹنے کی ممانعت ہے) صرف اس شخص کے ساتھ خاص ہے جو قربانی کا ارادہ رکھتا ہو اور وہ لوگ جن کی طرف سے قربانی کی جا رہی ہے ، وہ چھوٹے ہوں یا بڑے ، انہیں بال کاٹنے مونڈھنے اور ناخن تراشنے کی ممانعت نہیں ہے ۔ کیونکہ اصل جواز ہے اور ہمیں اس جواز کے خلاف کوئی دلیل معلوم نہیں ہے ۔
(فتاوی اللجنة الدائمة : 427/11)
4 کیا جو شخص قربانی کی طاقت نہیں رکھتا وہ بھی اپنے بال اور ناخن نہ کاٹے ؟
ایک شخص نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا : اگر میں صرف مادہ اونٹنی یا بکری کے کوئی اور چیز نہ پاؤں تو کیا اسے قربان کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
لَا، وَلَكِنْ تَأْخُذُ مِنْ شَعْرِكَ وَأَظْفَارِكَ وَتَقُصُّ شَارِبَكَ، وَتَحْلِقُ عَانَتَكَ، فَتِلْكَ تَمَامُ أُضْحِيَّتِكَ عِنْدَ الله عَزَّ وَجَلَّ .
نہیں، تم اپنے بال کتر لو، ناخن تراش لو، مونچھیں کتر لو، اور زیر ناف بال لے لو، اللہ تعالی کے ہاں بس یہی تمہاری پوری قربانی ہے ۔
(سنن ابی داؤد : 2789)
حافظ زبیر علی زئی فرماتے ہیں :
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو شخص قربانی کی طاقت نہ رکھتا ہو وہ اگر یکم ذوالحجہ سے نماز عید تک بال نہ کٹوائے اور ناخن نہ تراشے تو اسے پوری قربانی کا اجر و ثواب ملتا ہے ۔
(قربانی کے مسائل از حافظ زبیر علی زئی ص : 3)
5 اگر قربانی کا ارادہ رکھنے والے شخص کا ناخن وغیرہ ٹوٹ جائے ، تو کیا وہ اسے کاٹ سکتا
ہے ؟
محدث العصر حافظ زبیر علی زئی رقمطراز ہیں :
اگر (قربانی کا ارادہ رکھنے والے شخص) کا ناخن ٹوٹ جائے یا ایسی خرابی ہو جائے کہ ناخن تراشنا ضروری ہو تو ایسا کرنا جائز ہے (یعنی اسے کاٹنا جائز ہے) جیسا کہ اجماع سے ثابت ہے ۔
(قربانی کے مسائل از حافظ زبیر علی زئی ص : 2)
6 کیا گونگا شخص قربانی کا جانور ذبح کر سکتا ہے ؟
امام ابن منذر رقمطراز ہیں کہ :
وأجمعوا علي إباحة ذبيحة الأخرس
اس پر اجماع ہے کہ گونگے کا ذبیحہ جائز ہے ۔
(کتاب الاجماع ص : 40)
7 کیا عورت قربانی کا جانور ذبح کر سکتی ہے ؟
اگر عورت ذبح کرنے میں مہارت رکھتی ہو تو قربانی کا جانور ذبح کر سکتے ہے کوئی حرج نہیں ۔
امام بخاری تعلیقاً نقل کرتے ہیں :
أَمَرَ أَبُو مُوسَى بَنَاتِهِ أَنْ يُضَحِّينَ بِأَيْدِيهِنَّ .
ابوموسی رضی اللہ عنہ اپنے بیٹیوں کو حکم کیا کرتے تھے کہ وہ اپنے قربانیاں اپنے ہاتھوں سے ذبح کریں ۔
(بخاری ، قبل الحدیث : 5559)
علامہ عینی اس اثر کے تحت بیان کرتے ہوئے رقمطراز ہیں :
وفیه : أن ذبح النساء نسائكهن يجوز إذا كن يحسن الذبح .
اس اثر میں دلیل ہے کہ عورتیں اپنی قربانیاں خود ذبح کر سکتی ہیں بشرطیکہ وہ ذبح کرنے میں مہارت رکھتی ہوں ۔
(عمدة القاري : 155/21)
اسی طرح سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی حدیث بھی اس پر دلالت کرتی ہے کہ عورت کے ذبیحے میں کوئی حرج نہیں ۔
آپ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
أَنَّ امْرَأَةً ذَبَحَتْ شَاةً بِحَجَرٍ فَسُئِلَ النَّبِيُّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ فَأَمَرَ بِأَكْلِهَا .
ایک عورت نے پتھر سے بکری ذبح کر لی تھی پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے کھانے کا حکم دیا ۔
(صحیح بخاری : 5504)
8 اگر کسی شخص نے نماز عید سے قبل قربانی کا جانور ذبح کرلیا تو اس کا کفارہ کیا ہے ؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
مَنْ ذَبَحَ قَبْلَ الصَّلَاةِ فَلْيُعِدْ .
جس شخص نے نماز عید سے قبل قربانی کا جانور ذبح کر لیا تو وہ دوبارہ قربانی کرے ۔
(صحیح بخاری : 954)
9 کیا خصی جانور کی قربانی جائز ہے ؟
خصی جانور کی قربانی بلا کراہت جائز ہے ۔
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :
ذَبَحَ النَّبِيُّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الذَّبْحِ كَبْشَيْنِ أَقْرَنَيْنِ أَمْلَحَيْنِ مُوجَأَيْنِ .
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کے دو سینگوں والے چتکبرے خصی دنبے ذبح کئے ۔
(سنن ابی داؤد : 2795)
10 کیا حاملہ جانور کی قربانی جائز ہے ؟
حاملہ جانور کی قربانی جائز ہے اور اس کے پیٹ سے نکلنے والا بچہ حلال ہے ۔
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ :
میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بچے کے متعلق سوال کیا جو ماں کے پیٹ سے ذبح کرنے کے بعد نکلتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر چاہو تو اسے کھا لو ۔ مسدد کی روایت میں ہے: ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول!
نَنْحَرُ النَّاقَةَ، وَنَذْبَحُ الْبَقَرَةَ وَالشَّاةَ، فَنَجِدُ فِي بَطْنِهَا الْجَنِينَ، أَنُلْقِيهِ أَمْ نَأْكُلُهُ ؟ قَالَ : كُلُوهُ إِنْ شِئْتُمْ ؛ فَإِنَّ ذَكَاتَهُ ذَكَاةُ أُمِّهِ .
ہم اونٹنی کو نحر کرتے ہیں، گائے اور بکری کو ذبح کرتے ہیں اور اس کے پیٹ میں مردہ بچہ پاتے ہیں تو کیا ہم اس کو پھینک دیں یا اس کو بھی کھا لیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اگر چاہو تو اسے کھا لو، اس کی ماں کا ذبح کرنا اس کا بھی ذبح کرنا ہے ۔
(سنن أبي داؤد : 2827)
تاہم اگر حاملہ جانور کے پیٹ سے نکلنے والا بچہ زندہ ہو تو اسے ذبح کیا جائے گا ۔
امام احمد رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
إن خرج حيا ، فلا بد من زكاته لانه نفس أخري .
اگر وہ زندہ نکلے تو اس کا ذبح کرنا ضروری ہے ، کیونکہ وہ ایک الگ جان ہے ۔
(المغنی : 401/9)
11 اگر کسی شخص کے قربانی کا جانور گم ہو جائے تو اس کے لیے کیا حکم ہے ؟
اگر مسنون یا نفلی قربانی کا جانور گم ہو جائے تو مالک کی مرضی ہے کہ دوسرا جانور لیکر قربانی کرے یا نہ کرے ۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
أَيُّمَا رَجُلٍ أَهْدَى هَدِيَّةً فَضَلَّتْ فَإِنْ كَانَتْ نَذْرًا أَبْدَلَهَا , وَإِنْ كَانَتْ تَطَوُّعًا فَإِنْ شَاءَ أَبْدَلَهَا , وَإِنْ شَاءَ تَرَكَهَ
جو شخص قربانی کے جانور (بیت اللہ کی طرف) روانہ کرے پھر وہ گم ہو جائیں ، اگر یہ نذر کی تھیں تو اسے دوبارہ بھیجنے پڑیں گے اگر نفلی تھی تو اس کی مرضی ہے دوبارہ قربانے کرے یا نہ کرے ۔
(سنن الکبری : 61919)
12 اگر قربانی کے جانور میں خریدنے کے بعد عیب پڑ جائے تو اس کا کیا حکم ہے ؟
سیدنا عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے قربانی کے جانوروں میں ایک کانی اونٹنی دیکھی تو فرمایا :
إِنْ كَانَ أَصَابَهَا بَعْدَ مَا اشْتَرَيْتُمُوهَا فَأَمْضُوهَا , وَإِنْ كَانَ أَصَابَهَا قَبْلَ أَنْ تَشْتَرُوهَا فَأَبْدِلُوهَا
اگر یہ خریدنے کے بعد کانی ہوئی ہے تو اس کی قربانی کرلو اور اگر خریدنے سے پہلے یہ کانی تھی تو اسے بدل کر دوسرے اونٹنی کی قربانی کرو ۔
(سنن الکبری : 19195)
حافظ زبیر علی زئی رحمہ اللہ مذکور روایت کو بیان کرنے کے بعد فرماتے ہیں :
ثابت ہوا اگر قربانی کا جانور خرید لیا جائے اور اس کے بعد اس میں کوئی نقص واقع ہو جائے تو ایسے جانور کی قربانی جائز ہے ۔
(قربانی کے مسائل ص : 6)
13 کیا فوت شدہ کی طرف سے قربانی کی جا سکتی ہے ؟
محدث العصر حافظ زبیر علی زئی فرماتے ہیں : میت کی طرف سے قربانی کے جواز والی حدیث ضعیف ہے تاہم صدقہ کے عمومی دلائل کی رو سے میت کی طرف سے قربانی جائز ہے ۔
ایسے قربانی کا سارا گوشت صدقہ کر دیا جائے گا ۔
شیخ الاسلام عبداللہ بن مبارک رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
أحب إلي أن يتصدق عنه، ولا يضحى عنه، وإن ضحى فلا يأكل منها شيئا، ويتصدق بها كلها .
میرے نزدیک پسندیدہ یہ ہے کہ میت کی طرف سے صدقہ کیا جائے قربانی نہ کی جائے ، تاہم اگر کوئی شخص قربانی کرتا ہے تو اس میں سے کچھ بھی نہ کھائے بلکہ سارے حصے اور گوشت کو صدقہ کردے ۔
(سنن ترمذی : 1495بحوالہ فتاوی علمیہ : 182/2)
14 کیا بھینس کی قربانی جائز ہے ؟
محدث العصر حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ رقمطراز ہیں :
اونٹ ، گائے ، بھیڑ اور بکری کی قربانی کتاب و سنت سے ثابت ہے اور یہ بات بلکل صحیح ہے کہ بھینس گائے کی ایک قسم ہے اس پر ائمہ اسلام کا اجماع ہے ۔
امام ابن المنذر (المتوفی : 318 ھ ) فرماتے ہیں :
وأجمعوا على أن حكم الجواميس حكم البقر .
اور اس بات پر اجماع ہے کہ بھینسوں کا وہی حکم ہے جو گائیوں کا ہے ۔
(کتاب الاجماع ص : 43)
ابن قدامہ (المتوفی : 620) لکھتے ہیں :
لاخلاف في هذا نعلمه .
اس مسئلہ میں ہمارے علم کے مطابق کوئی اختلاف نہیں ۔
(المغنی : 240/2)
زکواة کے سلسلے میں اس پر اجماع ہے کہ بھینس گائے کی جنس میں سے ہے ۔
اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ بھینس گائے کی ہی ایک قسم ہے ۔ چونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین سے صراحتاً بھینس کی قربانی کا کوئی ثبوت نہیں ہے ، لہذا بہتر یہی ہے کہ بھینس کی قربانی نہ کی جائے ۔ بلکہ صرف اونٹ ، گائے ، بیل ، بھیڑ اور بکری کی ہی قربانی کی جائے اور اسی میں احتیاط ہے ۔
(فتاوی علمیہ : 182/2)
15 کیا جو شخص خود قربانی کا جانور ذبح نہ کرے اس کا ذبح کے وقت وہاں موجود ہونا ضروری ہے ؟
جو شخص خود قربانی کا جانور ذبح نہ کرے اس کا ذبح کے وقت وہاں موجود ہونا ضروری نہیں ہے ۔
جن روایات میں قربانی کے وقت حاضر ہونے کا حکم ہے وہ اپنے ضعیف کی وجہ سے ناقابل حجت ہیں ۔
16 کیا مسافر کے لیے قربانی مشروع ہے ؟
مقیم کی طرح مسافر کے لیے بھی قربانی مشروع ہے ۔ صحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دوران سفر قربانی کی ہے ۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :
كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَفَرٍ، فَحَضَرَ الْأَضْحَى فَاشْتَرَكْنَا فِي الْبَقَرَةِ سَبْعَةً، وَفِي الْجَزُورِ
عَشَرَةً .
ہم ایک سفر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے کہ عید الاضحی کا دن آ گیا، چنانچہ گائے میں ہم سات سات لوگ اور اونٹ میں دس دس لوگ شریک ہوئے۔
(سنن ترمذی : 905)
17 کیا قربانی کا چمڑہ قصاب کو بطور اجرت دینا جائز ہے ؟
قربانی کا چمڑہ قصاب کو بطور اجرت دینا جائز نہیں ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :
أَمَرَنِي رَسُولُ اللهِ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ أَقُومَ عَلَى بُدْنِهِ، وَأَنْ أَتَصَدَّقَ بِلَحْمِهَا وَجُلُودِهَا وَأَجِلَّتِهَا، وَأَنْ لَا أُعْطِيَ الْجَزَّارَ مِنْهَا ، قَالَ: نَحْنُ نُعْطِيهِ مِنْ عِنْدِنَا .
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ میں آپ کے قربانی کے اونٹوں کی نگرانی کروں اور ان کا گوشت چمڑے اور جھول صدقہ کردوں اور قصاب کو اس سے بطور اجرت کچھ نہ دوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ہم اس کو اپنے پاس سے ( اجرت ) دیں گے ۔
(صحیح مسلم : 3180)
18 کیا رات کو قربانی کا جانور ذبح کیا جا سکتا ہے ؟
قربانی کی راتوں میں جانور ذبح کیا جا سکتا ہے ۔ شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
أن القول بعدم الإجزاء وبالكراهة يحتاج إلي دليل .
قربانی کی راتوں میں جانور ذبح کرنے کی ممانعت اور کراہت کا دعوی دلیل کا محتاج ہے ۔
(نیل الاوطار : 149/5)
یعنی رات کو جانور ذبح کرنے کی کراہت و ممانعت کی کوئی دلیل نہیں ، لہذا رات کو قربانی کا جانور ذبح کیا جا سکتا ہے ۔
19 اگر کوئی شخص اپنے گھر والوں کی طرف سے الگ قربانی کرنا چاہے تو کر سکتا ہے ؟
اگر کوئی شخص اپنے گھر والوں کی طرف سے الگ قربانی کرنا چاہے تو کر سکتا ہے ۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں : ضَحَّى رَسُولُ الله صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَزْوَاجِهِ بِالْبَقَرِ .
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیویوں کی طرف سے گائے کی قربانی کی ہے۔
(صحيح بخاري : 5548)
20 کیا کوئی شخص دو جانور قربان کر سکتا ہے ؟
اگر کوئی شخص دو جانور قربان کرنا چاہے تو کر سکتا ہے بشرطیکہ ریا و نمود نہ ہو ۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ :
كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى الله عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُضَحِّي بِكَبْشَيْنِ، وَأَنَا أُضَحِّي بِكَبْشَيْنِ .
نبی صلی اللہ علیہ وسلم دو مینڈھوں کی قربانی کرتے تھے اور میں بھی دو مینڈھوں کی قربانی کرتا تھا۔
(صحيح بخاري : 5553)
امام بطال رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
فمن أراد أن يضحي عن نفسه بإثنين أو ثلاثة ، فهو أزيد في أجره إذا أراد بذالك وجه الله و إطعام المساكين .
جو شخص اپنی طرف سے دو یا تین قربانیاں کرنا چاہے تو یہ عمل اس کے لیے زیادہ اجر و ثواب کا کام
ہے ۔ بشرطیکہ نیت رضائے الاہی کا حصول اور مسکینوں کو کھانا کھلانا ہو ۔
(شرح ابن بطال : 18/6)
21 کیا غیر مسلم کو قربانی کا گوشت دینا جائز ہے ؟
فقر ، قرابت ، پڑوس یا تالیف قلب کے لیے کافر کو بھی قربانی کا گوشت دینا جائز ہے ۔
(فتاوی اللجنة الدائمة : 424/11)
22 کیا قربانی کے چمڑوں سے مدارس دینیہ کے اساتذہ کو تنخواہیں دی جا سکتی نیز ان سے غریب و نادار طلباء کے کتب و خوراک وغیرہ میں خرچ کیا جا سکتا ہے ؟
یہی سوال حافظ عبداللہ محدث روپڑی رحمہ اللہ سے کیا گیا تھا ذیل میں ان کی فتوی من و عن پیش ہے ۔
سوال : کیا انجمن اسلامیہ بوجہ غربت مدرس مدرسہ اسلامیہ کی تنخواہ یا غریب اور نادار طلباء کی کتب اور خوراک وغیرہ یا جلساء ہائے علماء میں قربانی کے چمڑوں کو خرچ کرنے کا شرعی مجاز رکھتی ہیں اور مبلغین کو بطور ہدیہ کے چمڑے ہائے قربانی دیے جا سکتے ہیں ؟
جواب :
﴿لِلفُقَراءِ الَّذينَ أُحصِروا في سَبيلِ الله لا يَستَطيعونَ ضَربًا﴾
(صدقات) ان فقراء کے لیے ہیں جو اللہ کے راستے میں روکے ہوئے ہیں ، جو زمین میں سفر نہیں کر سکتے ۔
(البقرة: ٢٧٣)
اس آیت سے پہلے صدقات کا ذکر ہے ، پھر فرمایا کہ یہ صدقات ان فقیروں کے لیے ہیں ، جو خدا کے راستے میں بند ہیں ، زمین میں سفر نہیں کر سکتے ، یعنی تجارت وغیرہ نہیں کر سکتے ، کیونکہ سفر کرنے سے دین کا کام بند ہو جاتا ہے ، حدیث میں قربانی کے چمڑوں کے بابت صدقہ کرنے کا حکم آیا ہے اور اس آیت میں صدقات کے مستحق یہ لوگ بتائے ہیں ، جو فی سبیل للہ محصور ہیں ، ان من طالب علم ، مدرسین ، مبلغین بھی شامل ہیں ، سوال کی صورت مین جن لوگوں کا ذکر ہے ، ان پر قربانی کے چمڑے لگ سکتے ہیں ۔
(فتاوی اہل حدیث :441/2)