سوال (1356)
“من کان له سعة فلم يضح فلا يقربن مصلانا”
اس حدیث کی رو سے کیا یہ کہنا درست ہے کہ قربانی کا تعلق صاحب استطاعت فرد سے ہے نہ کہ پورے گھرانے سے؟ تفصیلی دلائل درکار ہیں۔
جواب
اصل میں قربانیاں آ رہی ہیں ، قربانیاں آنے پر طوفان بدتمیزی برپا ہو جائے گا ، یہ میں نے سخت لفظ استعمال کیا ہے ، لیکن یہ حقیقت ہے ، اصل بات یہ ہے کہ قربانی کا بنیادی ذمے دار پورے گھر کا سربراہ ہے ، قرون اولی یا ماضی قریب میں جا کر دیکھیں کہ عورت کی کمائی کا کوئی سلسلہ نہیں تھا ، کیونکہ عورت کا بنیادی کام گھر کو سنبھالنا ہے ، یہ سوال اس وقت اٹھتا ہے ، جب گھر کے دس افراد کما رہے ہوں تو کیا قربانی ایک پر ہے ، یا دس پر ہے ، اصل میں قربانی گھر کے سربراہ کے ذمے ہے ، اگر گھر کے دس افراد کما رہے ہیں تواسکا شریعت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔
فضیلۃ العالم عبدالرزاق زاہد حفظہ اللہ
کچھ باتوں کی وضاحت شیخ محترم نےکردی ہے ، اللہ تعالی ان کو برکتیں عطا فرمائے۔اس حدیث کا مخاطب استطاعت کے ساتھ ساتھ گھر کا سربراہ ہے ، کیونکہ دیگر ادلہ اس کے حق میں ہیں ، ہر فرد مراد نہیں ہے ، البتہ ممکن ہے ہر کسی کا اپنا بودوباش ہوتا ہے ، ایک چھت کے نیچے ہر کوئی اپنے گھر کا سربراہ ہو ، پانچ فیملیاں رہتی ہیں تو پھر ہر سربراہ اس کا مخاطب ہوگا ، اگر وہ استطاعت رکھتا ہے ، وہ کیفیت نہ ہو جو شیخ نے ذکر کی کہ کبھی مجتمع ہو جائیں ، کبھی متفرق ہو جائیں، تو انتہائی دیانت کے ساتھ فیصلہ کریں کہ قربانی سے پہلے سربراہی کا معاملہ کیا تھا اور قربانی سر پہ آئی اس وقت استطاعت اور سربراہی کا معاملہ کیا ہے، البتہ ترغیب دی جا سکتی ہے کہ گھر کا سربراہ قربانی کرے اور بچے صاحب حیثیت ہوں اور اضافی کرنا چاہیں تو یہ ایک اچھا پہلو ہے اور وہ چاہیں تو کسی کو قربانی کے جانور دلا دیں یہ بھی حدیث سے ثابت ہے کہ نبی علیہ السلام نے قربانی کے جانور بھی تقسیم کیے ہیں ۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
سائل : شیخ اسی پر تو دلائل درکار ہیں، اگر کوئی کہے کہ اس وقت یہ صورت حال تھی کہ سربراہ ہی کماتا تھا تو سربراہ ہی کے ذمہ تھی کہ باقی استطاعت ہی نہیں رکھتے تھے۔ اب جب ایک سے زائد کمانے والے ہیں تو وہ بھی اس من کے عموم میں شامل ہیں۔
جواب :
شریعت کے اصول و ضوابط وقت کے ساتھ تبدیل نہیں ہوتے ہیں ، بات یہ ہے کہ میاں بیوی دونوں کما رہے ہیں ، تو شرعی طور پہ عورت کے لیے اپنے مال کو شوہر کی مرضی کے بغیر خرچ کرنے کی اجازت ہے ، یقینی طور پر نہیں ہے ، یعنی عورت کا مال شوہر کے ماتحت ہے ، اس لیے اصول یہ ہے کہ قربانی صرف و صرف گھر کے ذمے دار کے اوپر ہے ، ایک خاندان کی طرف سے ایک ہی قربانی کافی ہے ، باقی اس میں آگے تفصیل ہے ، جس طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے زکاۃ کے ڈر سےمجتمع مال کو منتشر کرنے سے منع کیا تھا ، اس طرح یہ نہیں کرنا چاہیے ویسے سب الگ الگ ہوتے ہیں ، لیکن جب قربانی کی باری آئے تو کہیں گے کہ ہم سب ساتھ ہیں ۔
فضیلۃ العالم عبدالرزاق زاہد حفظہ اللہ
سائل : بارك الله فيك، شیخنا! میرا مقصود یہی تھا کہ اس چیز کے تفصیلی دلائل مطلوب ہیں کہ قربانی کا تعلق گھرانے کی وسعت سے ہے نہ کہ انفرادی وسعت سے۔ اپ نے عورت کی بات کی یہاں پر پھر یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ اگر الگ الگ کمانے والے مرد ہوں تو۔ اور جن کے ہاں قربانی واجب کے درجے میں ہے تو کیا واجب کی ادائیگی کے لیے خاوند کی اجازت ضروری قرار پائے گی؟ وغیرہ
میرے عزیز ! بیشک کمانے والے مرد بھی ہونگے ، لیکن وہاں پر دوسرا پہلو آپ نے نظر انداز کر دیا ہے ، جو میں نے پیچھے گزارش کی ہے اور وہ یہ ہے کہ کیا فیملی ایک ہے ، خاندان ایک ہے ، دوسرا سوال اگر خاندان ایک ہے تو یقینا اس خاندان کا سربراہ تو کوئی نہ کوئی ہوگا ، جی بالکل ہے تو وہ اس کا ذمے ہے ، اب وہ خاندان کے دیگر افراد جو کمانے والے ہیں اس کے ساتھ تعاون کرتے ہیں ، نہیں کرتے ، وہ ایک علیحدہ مسئلہ ہے کہ وہ ہر خاندان کی اپنی اپنی ایک کہانی ہے ہر گھر کا اپنا اپنا ایک معاملہ ہے ، میرے حساب سے اس حوالے سے مجھے تو شرح صدر ہے بات بالکل واضح ہے ، لیکن اگر آپ کے ذہن میں کوئی اشکال ہے ، تو ان شاءاللہ علماء کی محفل ہے مجھے حکم کریں گے ، میں حاضر ہوں ، دیگر مشائخ کو بھی اس معاملے میں اپنی قیمتی آراء کا اظہار کا کھلا موقع ملنا چاہیے ۔
فضیلۃ العالم عبدالرزاق زاہد حفظہ اللہ
باقی معاملہ جہاں تک عورت کا ہے تو عورت براہ راست تو اس حدیث کا مخاطب نہیں ہے ، البتہ ممکن ہے کہ شوہر دنیا سے رخصت ہو جائے اور بڑی ہونے کے ناطے سے بچوں نے اور تمام شادی شدہ بچوں نے بھی انہی کو سربراہ مقرر کیا ہو کہ امی فیصلہ کریں ، امی جو بات کریں تو ایسی صورت میں پھر وہ مخاطب ہو سکتی ہے اور وہ صاحب استطاعت ہوگی اپنے اہل و اولاد کی وجہ سے جو ان کو پیسے دیتے ہیں، انہی کے ہاتھ میں لا کے پیسے رکھتے ہیں ، تو وہ انہیں کو نامزد کر کے ان کی طرف سے قربانی کر دیں تو ان شاءاللہ کفایت کر جائے گی یہ بھی ایک صورت ہو سکتی ہے ۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ