سوال (1660)
نبی کریم صلی السلام نے فرمایا:
“إِذَا رَأَيْتُمْ هِلَالَ ذِي الْحِجَّةِ وَأَرَادَ أَحَدُكُمْ أَنْ يُضَحِّيَ فَلْيُمْسِكْ عَنْ شَعْرِهِ وَأَظْفَارِهِ” [صحیح مسلم: 5119]
«جب تم ذو الحجہ کا چاند دیکھو اور تم میں سے کوئی شخص قربانی کا ارادہ رکھتا ہو، وہ اپنے بالوں اور ناخنوں کو (نہ کاٹے) اپنے حال پر رہنے دے»
سوال یہ ہے کہ یہ حکم وجوبی ہے یا استحبابی ہے؟
جواب
قربانی کرنے والے شخص کے لیے یہ حکم وجوبی ہے،
[“المحلى” (6 / 3)،”المغني” (9 / 346)،”نيل الأوطار” (5 / 133)]
البتہ اگر کوئی قربانی کا ارادہ رکھنے والا شخص بال یا ناخن وغیرہ کاٹ لیتا ہے تو اس کی قربانی ہوجائے گی اور اس پر کوئی فدیہ وغیرہ لازم نہیں ہوگا، لیکن توبہ و استغفار ضرور کرے گا۔
فضیلۃ العالم عبد الخالق سیف حفظہ اللہ
سوال: ذی الحجہ کے چاند کے بعد ناخن اور بال کاٹنے سے رک جانا، یہ صرف قربانی کرنے والے کے ساتھ خاص ہے یا پھر گھر کے تمام افراد اس میں شامل ہیں؟
جواب: اس حدیث کا مخاطب وہ شخص ہے، جس کو قربانی کرنی ہے، کہ اس شخص کو بال اور ناخن وغیرہ نہیں کاٹنے ہیں، باقی اگر گھر والوں کی تعلیم و تربیت کے لیے ان کو بھی تاکید کرتا ہے، تو کوئی حرج نہیں ہے، بعض علماء نے کہا ہے کہ قربانی میں گھر والے بھی شریک ہو رہے ہیں، ان کو بھی خیال کرنا چاہیے، لیکن براہ راست حکم قربانی کرنے والے کے لیے ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ