سوال (1707)

قربانی میں وکیل یا نائب بنایا جائے تو وقت کس کا معتبر ہو گا ؟ وکیل نماز پڑھ کر قربانی کر سکتا ہے اگر موکل کی نماز کا وقت بعد میں ہو یا موکل کی نماز کا اعتبار ہو گا ؟

جواب

جہاں قربانی کرنی ہے ، وہاں عید کا دن ہونا چاہیے اور عید کے بعد قربانی کی جائے۔

فضیلۃ الشیخ سعید مجتبیٰ سعیدی حفظہ اللہ

جس نے وکیل بنایا اس کے وقت کا اعتبار ہوگا ، کیونکہ قربانی اس کی ہے وکیل تو اس شخص کی عدم موجودگی میں ادائیگی کر رہا ہے ۔

فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ

یعنی موکل کا پھر جہاں تاریخ کا فرق ہے وہاں پہلا دن موکل کا دوسرا دن وکیل کا شمار ہو گا ؟

فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ

تاریخ یا ایام نحر میں فرق ہو تو پھر اس دن ہی کی جائے گی جو ایام نحر موکل کے ہونگے ۔ مثلا کسی ملک میں عید پاکستان سے ایک دن پہلے ہوتی ہے جبکہ پاکستان میں ایک دن بعد تو قربانی موکل کے عید کے دن میں کی جائے گی

فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ

یہ بات عجیب ہے ، جب وکیل موکل کے قائم مقام ہوتا ہے تو اور وکیل کی اپنے وقت پر ادائیگی موکل کی طرف سے درست کیوں نہیں۔

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

کوئی پاکستانی اپنی قربانی سعودیہ بھیجتا ہے تو اسکی کیا ترتیب ہے ؟ سعودیہ ایک دن پہلے ہوتا ، اگر سعودیہ میں وکیل کر لے تو قربانی ہو گی یا نہیں ؟ موکل نے عید اگلے دن پڑھنی ہے ۔

فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ

وہ وکیل وہاں کے دوسرے دن کے حساب سے قربانی کرے گا جو یہاں کا پہلا دن ہو گا ، وکیل اس بات کا علم تو ہے کہ موکل کا یوم نحر کیا اور وقت نحر کیا ہے۔

فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ

اور اگر کر لے جیسا کہ بعض اجازت کا موقف رکھتے ہیں ؟ قربانی ہو جائے گی ؟

فضیلۃ الباحث اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ

شیخ جو اجازت کا موقف رکھتے ہیں یہ ان سے پوچھا جائے ، ہم نے اپنی بات اوپر اپنی بات ذکر کر دی ہے۔ کہ اعتبار موکل کے دن اور وقت کا ہو گا ۔

فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ

بات تو یہی اصل لگتی ہے ، لیکن اب دوسرا موقف بھی واضح ہونا چاہیے تاکہ سائلین کی تسلی کی جا سکے۔

فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ

“العبرة بوقت مكان الذبح” اگر وکیل اور موکل دو مختلف ممالک میں ہیں تو وکیل کے ٹائم کا اعتبار کیا جائے گا کیونکہ وہ موکل کے قائم مقام ہے ۔

فضیلۃ الباحث داؤد اسماعیل حفظہ اللہ

شیخ اس چیز کی دلیل ذکر کریں ۔

فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ

شیخ دلیل “الوكيل يقوم مقام الموكل” ذکر کی ہے ۔

فضیلۃ الباحث داؤد اسماعیل حفظہ اللہ

شیخ اس بات کا حوالہ درکار ہے ؟

فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ

بھائی مقاصد شریعت بھی کسی چیز کا نام ہے۔ قواعد و اصول کیا ہوتے ہیں ہر بات کی نصا اور لفظوں میں دلیل تو وارد نہیں ہوتی ہے ، آپ یہ بتائیں کہ کیا وکیل موکل کے قائم مقام نہیں ہوتا ، وکیل کی جانب سے ادائیگی موکل کی۔جانب سے شمار نہیں ہوگی ۔

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

اس کا مطلب کہ یہاں اجتماعی قربانی والا ایک نماز پڑھ لے تو قربانی کر دے باقی بھلے بعد میں پڑھتے رہیں ۔ وکیل جس کا ہے اس کا لحاظ نہیں رکھا جائے گا ؟

فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ

کیا وکیل موکل کے قائم مقام ہوتا ہے کہ نہیں ؟ اس کا حوالہ درکار ہے ؟

يجوز للوكيل في الأضحية ذبح أضحية الموكل بعد صلاة العيد بالنسبة للوكيل، دون الموكل ، لأن الوكيل قائم مقام موكله. ولا يؤثر كون ذبح الأضحية قبل دخول وقت الذبح في البلد الذي يقيم فيه الموكل. وبالله التوفيق، وصلى الله على نبينا محمد وآله وصحبه وسلم.
[اللجنة الدائمة للبحوث العلمية والإفتاء]

“وفي الموسوعة الفقهية الكويتية” إذا كان من عليه الأضحية مقيما في المصر ووكل من يضحى عنه في غيره أو بالعكس فالعبرة بمكان الذبح لا بمكان الموكل المضحي لأن الذبح هو القربة.

فضیلۃ الباحث داؤد اسماعیل حفظہ اللہ

اس میں دلیل ذکر نہیں ہے

فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ

شیخ اگر اس فتویٰ کی دلیل مل جائے تو بہتر ہو گا ۔ جزاک اللہ خیرا کثیرا

فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ

عمومی ادلہ قربانی کی بعد نماز ہی ہیں ، لیکن اب یہی فتویٰ اور بات سمجھ نہیں آ رہی ہے ، دلیل بھی کوئی نہیں مل رہی ہے ۔

فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ

جی بالکل ایسا ہی ہے۔

فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ

ولو أخرها إلى أن تدخل صلاة العيد في بلد الموكِّل: فهو حسن، فالأضحية وقتها موسع، إلى آخر أيام التشريق. والله أعلم.

فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ

جواز کی بات ہو رہی ہے ، اولیت کی نہیں ہے ، دلیل تو یہاں بھی مذکور نہیں ہے ۔

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

عمومی ادلہ اسی پر ہیں۔

فضیلۃ العاکم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ

حسن ہونا اور ہے اور جواز اور ہے

اس مین سابقہ بات کی نفی تو نہیں ہے ۔

فضیلۃ الباحث داؤد اسماعیل حفظہ اللہ

ترجیح دی گئی ہے ، سابقہ بات پر دلیل کوئی نہیں ہے ، آپ نے جو قول یا اصول نقل کیا اس کا حوالہ نہیں ہے ، بات کمزور ہی ہے اب تک
دلائل باحوالہ ذکر فرمائیں ۔کچھ کلیئر ہو۔

فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ

عبارت پر غور کریں یہ ترجیح ہے یا کچھ اور اور ویسے بھی یہ عبارت لجنہ کی نہیں۔

فضیلۃ الباحث داؤد اسماعیل حفظہ اللہ

دلیل تو ذکر کریں ۔ اس کے بغیر بے مقصد ہے۔

فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ

پچھلے سال یہی مسئلہ کبار اہل علم میں ڈسکس ہوا تھا کہ گائے میں سات افراد شریک ہیں ، سب کا نماز کا وقت الگ الگ ہے ، اگر ایک کا پہلے ہے تو کیا وہ پڑھ کر گائے ذبح کر سکتے ہیں تو جواب یہ تھا کہ گائے تب ذبح ہو گی جب سب نماز پڑھ لیں گے ۔
قائم مقام اس کو ذبح کی ادائیگی میں ہے ، کیونکہ وہ بندہ بنفسہ موجود نہیں ہے ، لیکن اس سے اصل حکم بدل نہیں جائے گا ۔

فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ

کیا امر واقع میں مختلف علاقوں کے لوگ ایک قربانی میں شامل ہوتے ہیں ، جب ایک قربانی میں اہل علاقہ عموما جمع ہوتے ہیں اور ان کی نماز تقریبا ایک وقت پر ہوتی ہے ، چلیں فرض کریں کسی شہر یا گاوں میں دو , تین یا اس سے زائد جماعتیں ہوئیں ہیں تو ایک ہی دن میں ہیں اگرچہ وقت کچھ آگے پیچھے ہو جائے۔
دوسرا قربانی کے حصوں میں شرک ہونا
اور کسی کو وکیل بنانا میں فرق ہے ۔
شرکاء قربانی اور کسی دوسرے آدمی کو اپنی جگہ اپنا امر سونپنا میں فرق ہے

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

جس کے پاس جانور ہوتا ہے ، وہ باقیوں کا وکیل ہی ہوتا ہے ، اجتماعی قربانی کا عام معاملہ سب کے سامنے ہے ۔

فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ

شرک کی بات ہی نہیں ہو رہی ہے ، صرف وقت نماز پر بات ہے ۔ دونوں کے لیے الگ حکم کیوں ہے جبکہ مسئلہ ایک ہے۔

فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ

امر واقع ہوتے ہیں ، ہمارے کئی عزیز گاؤں میں اجتماعی قربانی میں شریک ہوتے لیکن وہ رہتے کراچی ہیں ، اس طرح بہت سے لوگ مختلف شہروں سے ایک قربانی میں شریک ہوتے ہیں
لیکن وہاں ہم یہ کہتے ہیں کہ تب ذبح ہو گا جب سب نماز پڑھ لیں ۔
سات افراد نے ایک کو ہی تقریباً سونپا ہوتا ہے وہی جانور دیکھتا ہے وہی لاتا ہے اس کی ہی ڈیوٹی ذبح کرنا ہوتی ہے ، باقی تو تقسیم کے وقت جاتے ہیں اور اپنا اپنا حصہ لے آتے ہیں ۔

فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ

میں آپ کو نماز پڑھانے کا وکیل بناؤں تو آپ میرے وقت کا اعتبار کریں گے؟! پچھلے وقتوں میں لوگ جب سفر وغیرہ پر جاتے تھے اپنے معاملات کا وکیل کسی کو بنا جاتے تو کیا وہ ان امور میں (قربانی بھی اس میں شامل ہے) موکل کے وقت و ایام کی ٹوہ میں لگتا ، طبعی بات ہے وکیل ہے ہاں جو وقت ہوتا وہ اس کا اعتبار کرتا اور اس پر شرعی اعتبار سے عمل کرتا اور اس وقت امکان بھی ان چیزوں کا کم تھا کہ دوسرے علاقے میں موجود آدمی کے وقت و ایام کا پتہ لگایا جائے ۔
اس سے کسی کو وکیل بنانا اپنے امور کا ثابت نہیں ہوتا ہے ، اگرچہ اس کی بعض کیفیات یہاں موجود ہوں ۔

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

نماز کا وقت مقرر ہے ، اسی پر ادا کرواتا جو وقت متعین ہے ، قربانی کا وقت متعین بعد نماز ہے ، اب اس وقت کو خود سے بدلنا مقاصد شریعت کہہ کر محل نظر ہے ۔

فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ

قیاس درست نہیں ہے ، تھوڑا غور کریں کہ آپ کس کو کس امر پر قیاس کر رہے ہیں ، جہاں کوئی علت مشترک نہیں ہے ، نماز میں نیابت کو قربانی کی نیابت پر قیاس ۔۔۔

فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ

قیاس من حیث الکل نہیں ہے

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

یہاں من حیث الجزء بھی درست نہیں ہے ۔

فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ

مقصود وکیل کی حیثیت ثابت کرنا تھا

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

یہی بات ہم سمجھا رہے ہیں کہ کسی کو وکیل بنا دینے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ اپنے وقت کا اعتبار کرنے لگ جائے ، لہذا وکیل ادائیگی کرے مگر موکل کے وقت کے حساب سے ، چلیں اس کو آسان کر دیتے ہیں وکیل جب گوشت کی تقسیم کرے گا موکل سے پوچھے گا
کونسا جانور لینا موکل سے پوچھے گا
کیسا لینا موکل سے پوچھے گا ۔
ہر جگہ وکیل موکل کی ہدایات کا پابند ہوتا ہے لیکن زبح میں وہ خود مختار ہو جاتا یہ بات عقلا شرعا صحیح معلوم ہوتی ہے ۔
بارک اللہ فیک ، اچھا لگا علمی بات چیت ہوئی ہے ، وکیل کی حیثیت خودمختار کی نہیں ہوتی بس یہ بتانا مقصود تھا۔

فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ

بھائی مقصود کیا ہے وکیل بنانے سے ، آپ نے مختلف جہات ذکر کی ہیں ، جب ان تمام میں وہ اپنا امر کسی کو سونپ دے تو وکیل کو اختیار ہے ، اگر میں آپ کو فقط جانور کی خریداری کا وکیل بناتا ہوں ، تو مجھے اختیار ہے کہ جانور جیسا بھی خریدوں ۔
علی حسبہ
باقی بعض پیچیدگیاں تو بہرحال رہیں گی ، موکل ، موکل ہوتا ہے اور وکیل ۔

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

تو موکل کو موکل رہنے دیں ، وکیل کو وکیل رہنے دیں ، تو مسئلہ نہیں آئے گا ، جبکہ دلیل بھی کوئی نہ ہو۔

فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ

مقصود یہ کہ میں باہر کے ملک ہوں قربانی پاکستان کرنا چاہتا ہوں ، اب وہاں کسی کے زمہ یہ کام لگانا کہ آپ میری عدم موجودگی میں یہ کام سر انجام دیں ، اب میں است رقم جانور بڑا لینا چھوٹا گوشت کی تقسیم کیسے کرنی تمام چیزیں گائیڈ کر دیتا ہوں ، اب وہ وکیل ان تمام ہدایات کا پابند ہو گا

فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ

اور اگر وکیل خود رد و بدل کرے تو موکل اظہار ناراضگی بھی کرتا ہے۔

فضیلۃ العالم اکرام اللہ واحدی حفظہ اللہ

بھائی ادائیگی فریضہ کے وقت اور باقی صفات میں بہرحال فرق موجود ہے۔

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ

نیابت میں ہر چیز میں مختلف ہوتی ہے ، لہذا ہر ایک کو دوسرے امر پر قیاس درست نہیں ہو گا ، جیسے آپ نے نماز کی نیابت کا قیاس قربانی پر کیا ہے ۔

فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ

دوسرا یہاں مشروط وکالت ہے ، میرا مقصود تو یہ تھا کہ اعتدال پر رہیں بالکل ہی اسکی حیثیت نہ گرائیں ، باقی یہ بات آپ بھی تسلیم کر چکے کہ نیابت میں درجات ہیں۔۔.!

فضیلۃ الباحث اسامہ شوکت حفظہ اللہ