سوال (5571)
ربیع الاول کی فضیلت کیا ہے اور گھر سجانا لائٹنگ کرنا صحیح ہے؟
جواب
جو حق اور صراط مستقیم کو پانا چاہتا ہے اسے حق اور صراط مستقیم پر چلنا نصیب ہو جاتا ہے۔
پہلا حق: ربیع الاول کے مہینے میں رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کا ولادت پانا قرآن وحدیث سے ثابت نہیں ہے۔
دوسرے الفاظ میں مہینہ ولادت، تاریخ ولادت ربیع الاول میں ہرگز ثابت نہیں ہے۔
بلکہ مؤرخین کے نزدیک اس بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔
مثال کے طور پر شیخ عبد القادر جیلانی رحمة الله عليه کے نزدیک رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم محرم کے مہینے میں پیدا ہوئے تھے۔( دیکھیے غنية الطالبين للجيلاني)
کسی صحابی نے رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم سے مہینہ ولادت ربیع الاول ہونا بیان نہیں کیا ہے۔
عقل وشعور رکھنے والے جانتے ہیں کہ اختلاف کی صورت میں دلیل کی پیروی کی جاتی ہے جو یہاں سرے سے موجود نہیں ہے۔
تو جب مہینہ اور تاریخ ولادت ہی کنفرم نہیں تو باقی چیزیں کس دلیل کی بنیاد پر قائم کر لی گئ ہیں؟
مہینہ ولادت ربیع الاول کی بارہ تاریخ ہی ہے یہ دعوی رکھنے والے صحیح اور صریح دلیل پیش کریں؟
خود رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم سے صراحت کے ساتھ ایسی حدیث پیش کریں کہ میں ربیع الاول کے مہینے میں پیدا ہوا ہوں؟
اہل بیت رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم سے کس نے بتایا ہو کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم ربیع الاول کے مہینے میں پیدا ہوئے؟
خلفائے راشدین میں سے کس نے بتایا ہو کہ رسول الله ﷺربیع الاول کے مہینے میں پیدا ہوئے؟
مزید سوال: رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے یوم ولادت باسعادت کو عید کا دن کس نے قرار دیا؟
کیا صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے یوم ولادت باسعادت کو عید کا دن قرار دیا تھا؟
کیا اہل بیت میں سے کسی نے رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے یوم ولادت باسعادت کو عید کا دن قرار دیا؟
کیا خلفائے راشدین میں سے کسی نے رسول الله ﷺ کے یوم ولادت باسعادت کو عید کا دن قرار دیا؟
کیا تابعین عظام میں سے کسی نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے یوم ولادت باسعادت کو عید قرار دیا؟
کیا ائمہ اربعہ میں سے کسی نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے یوم ولادت باسعادت کو عید قرار دیا؟
کیا امام جعفر صادق اور امام باقر نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے یوم ولادت باسعادت کو عید قرار دیا؟
جشن عید میلادالنبی کے الفاظ قرآن وحدیث سے پیش کریں؟
کیا رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے خود اپنے یوم ولادت کو عید قرار دیا؟
کیا رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنے یوم ولادت کی کوئی فضیلت بیان کی؟
کیا رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنے یوم ولادت پر جشن نہ منانے والے کے لئے کوئی وعید بیان کی؟
کیا رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم پر ایمان لانے اور آپ سے عقیدت ومحبت کا یہ معیار قرآن وحدیث میں بیان ہوا ہے؟
کیا خلفائے راشدین اور صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین نے مروجہ جشن عید میلاد النبی کی طرح عقیدت ومحبت کا یوں اظہار کبھی کیا تھا؟
یاد رہے رسول کائنات سیدنا محمد کریم صلی الله علیہ وسلم سے سب سے زیادہ عقیدت ومحبت کرنے والے صرف صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین تھے مگر انہوں نے برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں کی طرح رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ عقیدت ومحبت کا اظہار نہیں کیا نہ ہی انہوں نے چراغاں کیں نہ جلوس نکالے نہ ہی ریلیاں نکالی،نہ پی گھر اور گلیاں سجائیں آخر کیوں؟
کیا ان صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین سے زیادہ کوئی قرآن کریم کی آیات کا معنی ومفہوم اور تفسیر جانتا تھا؟
کیا صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین سے زیادہ عقیدت مصطفی ،محبت مصطفی صلی الله علیہ وسلم کا معنی ومفہوم سمجھتا تھا؟
کیا صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین کو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی دنیا میں تشریف لانے کی خوشی نہیں تھی؟
کیا تابعین عظام کو تبع تابعین کو،ائمہ محدثین کو رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے دنیا میں تشریف لانے کی خوشی نہیں تھی؟
کیا صحابہ کرام اور سلف صالحین نے اہل بدعت کی طرح رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کی ولادت باسعادت کو منایا اور یوں خوشی کا اظہار کیا؟
جبکہ ہمارا ایمان ہے کہ صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین سے زیادہ کوئی رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کی آمد مبارک کی اہمیت وفضیلت کو نہیں سمجھتا اور جانتا تھا۔
اور ان سے زیادہ کوئی بھی مسرت خوشی نہیں رکھتا تھا۔
بات حقیقت میں یہ ہے کہ برصغیر میں رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کی آمد مبارک کا جو تصور ونظریہ اور نقشہ پیش کیا گیا ہے یہ تصور وطریقہ اور نقشہ قرآن وحدیث رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کی تعلیم وترغیب سے نہیں ملتا ہے نہ ہی امت مسلمہ کے لئے یہ نقشہ اور عقیدت ومحبت کا اظہار وطریقہ قرآن وحدیث نے بیان کیا ہے ۔
صرف جو چیز ملتی ہے وہ یہ ہے کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اپنے یوم ولادت باسعادت کے دن یعنی ہر سوموار کو روزه رکھتے تھے۔
عَنْ أَبِي قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيِّ، رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُئِلَ عَنْ صَوْمِ الِاثْنَيْنِ؟ فَقَالَ: فِيهِ وُلِدْتُ وَفِيهِ أُنْزِلَ عَلَيَّ،
سیدنا ابو قتادہ انصاری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سوموار کے روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
اس دن میں میری ولادت ہوئی اور اس دن مجھ پر وحی نازل ہوئی۔
صحیح مسلم:(1162) كتاب الصيام،مسند أحمد بن حنبل: (22550)
یہ حدیث مبارک بہت واضح ہے کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے سوموار کے دن روزہ رکھنے کی ایک وجہ جو بیان فرمائی وہ یہ کہ اس دن میری ولادت ہوئی ہے۔
ایک دوسری حدیث میں ایک اضافی سبب بیان فرمایا کہ اس دن الله تعالى کے ہاں اعمال پیش ہوتے ہیں اور میں پسند کرتا ہوں کہ میرا عمل روزے کی حالت میں پیش ہو۔
[مسند أحمد بن حنبل: 21753،سنن نسائی:2358 سندہ حسن لأنه]
چند اہم فوائد: رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے سوموار کو روزہ رکھنے کے مختلف اسباب بیان فرمائے ان میں سے ایک سبب اس دن میں آپ کا پیدا ہونا تھا۔
(2) سوموار کے دن کی فضیلت اور یہ کہ اس دن رب العالمین کے ہاں اعمال پیش ہوتے ہیں۔
(3) رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم ہر سوموار کو روزہ رکھتے تھے اس لئے بغیر کسی دلیل کے کسی ایک دن اور مہینے کو خاص کر لینا مردود وباطل ہے۔
(4) رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے عید کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے۔
دیکھیے صحیح البخاری:(1990 ،1991 ،1993) صحیح مسلم:(1137) ﺑﺎﺏ اﻟﻨﻬﻲ ﻋﻦ ﺻﻮﻡ ﻳﻮﻡ اﻟﻔﻄﺮ ﻭﻳﻮﻡ اﻷﺿﺤﻰ
معلوم ہوا کہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے یوم ولادت باسعادت کو عید قرار دینا رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کی حدیث کی مخالفت ہے کیونکہ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے عید کے دن روزہ رکھنے سے منع فرمایا ہے اور اپنے یوم ولادت کے دن آپ نے روسی رکھا ہے سو یہ دن کبھی عید کا دن نہیں ہو سکتا ہے۔
(5) رسول اکرم ﷺ نے دو عیدوں کی وضاحت فرمائی ہے جنہیں اس امت کے لئے مقرر کیا گیا۔
ملاحظہ فرمائیں:
عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَدِمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْمَدِينَةَ، وَلَهُمْ يَوْمَانِ يَلْعَبُونَ فِيهِمَا، فَقَالَ: مَا هَذَانِ الْيَوْمَانِ؟، قَالُوا: كُنَّا نَلْعَبُ فِيهِمَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ! فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَبْدَلَكُمْ بِهِمَا خَيْرًا مِنْهُمَا, يَوْمَ الْأَضْحَى وَيَوْمَ الْفِطْرِ.
سیدنا انس رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں رسول الله صلی الله علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے (تو دیکھا کہ) ان کے لیے (سال میں) دو دن ہیں جن میں وہ کھیلتے کودتے ہیں تو آپ نے پوچھا: یہ دو دن کیسے ہیں؟ تو ان لوگوں نے کہا: جاہلیت میں ہم ان دو دنوں میں کھیلتے کودتے تھے، تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: الله نے تمہیں ان دونوں کے بدلے ان سے بہتر دو دن عطا فرما دیئے ہیں: ایک عید الاضحی کا دن اور دوسرا عید الفطر کا دن۔ [سنن أبو داود: 1134، مسند أحمد بن حنبل:13622 سنده صحيح حمید الطویل نے سماع کی صراحت کر دی ہے]
اور دوسری حدیث کے الفاظ ہیں:
ﺃﻣﺮﺕ ﺑﻴﻮﻡ اﻷﺿﺤﻰ، ﺟﻌﻠﻪ اﻟﻠﻪ ﻋﻴﺪا ﻟﻬﺬﻩ اﻷﻣﺔ،
یعنی الله تعالى نے عید الاضحی کو اس امت کے لئے عید بنایا ہے۔
[مسند أحمد بن حنبل: 6575، سنن أبوداود:2789 سنده حسن لذاته]
ان دو احادیث سے معلوم ہوا کہ اسلام میں صرف دو عیدوں کا تصور ہے اور احادیث مبارکہ کی کتب میں مستقل صرف دو عیدیں ہی ملیں گیں تیسری کوئی عید صحیح احادیث میں بیان نہیں ہوئی ہے۔
رب العالمین نے امت مسلمہ کو رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کی صورت میں سب سے بلند مقام وعظمت والے نبی اور رسول عطاء فرمائے جنہیں رب العالمین نے بہت ساری خصوصیات سے نوازا جیسے جہانوں کے لئے رحمت ،سراج منیر،شاہد ونذیر،احسان عظیم،رؤف ورحیم، امام الأنبیاء، قرآن جیسی عظیم کتاب،خاتم النبیین کے قیامت تک کوئی اور نبی نہ ہو گا اور بہت ساری صفات و خصوصیات عطا فرمائیں جو کسی اور نبی جو عطا نہیں ہوئی تھیں۔
آپ کا وجود پاک،لعاب دہن،جبہ مبارک،بال مبارک،پیالہ مبارک،ہاتھ مبارک باعث خیر،باعث برکت،باعث شفا تھے۔
زمین وآسمان کی ہر چیز کو آپ صلی الله علیہ وسلم کا تعارف ومقام بتایا گیا تھا سوائے نافرمان جنوں اور انسانوں کے۔ تو رب العالمین نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی جو شان وعظمت بیان فرمائی اسے ہم دل وجان سے مانتے اور بیان کرتے ہیں ہم رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت ومحبت کو فرض مانتے ہیں کہ اس کے بغیر کوئی مسلم نہیں کہلا سکتا ہے۔
ہم رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم سے عقیدت ومحبت اسی انداز کرتے ہیں جس انداز میں صحابہ کرام،اہل بیت اور سلف صالحین کرتے تھے۔
صحابہ کرام،سلف صالحین کی محبت وعقیدت مثالی تھی مگر اس میں شرک وبدعات کی بدبو موجود نہیں تھی کیونکہ وہی صحیح معنوں میں عقیدت ومحبت کے معیار کو جانتے اور سمجھتے تھے۔
اس لئے ہمارے اوپر رسول کائنات صلی الله علیہ وسلم کی غیر مشروط اطاعت ومحبت فرض ہے۔
آئیں ہم اپنی عقیدت ومحبت کو صحابہ کرام رضوان الله تعالی علیھم اجمعین کی محبت وعقیدت پر پیش کریں اور دیکھیں کیا ہماری محبت وعقیدت صحابہ کرام،سلف
صالحین کی عقیدت ومحبت کے موافق ہے یا مخالف ہے؟
ہمارا عقیدہ وایمان ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی آمد اہل ایمان کے لئے باعث خیر،اور مبارک ہے اور وہ دن بہت ہی بابرکت دن تھا ہم دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر اس پر خوش ہیں اور ہر چیز سے بڑھ کر اپنے پیارے رسول سیدنا محمد کریم صلی الله علیہ وسلم سے محبت کرتے ہیں اور آنے کے مقابلے میں کسی کی بات اور قول کو کچھ اہمیت نہیں دیتے ہیں۔
ہمارے مرشد وپیر،رہبر وراہنما اور امام و پیشوا صرف محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم ہیں ہم انہیں پر ایمان لاتے ہیں اور انہیں کی اطاعت و پیروی میں کامیابی اور نجات مانتے ہیں۔
رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کا یوم ولادت نہ الله تعالی نے منانے کا حکم دیا اور نہ ہی خود رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے منانے کا حکم دیا ہے۔
اس مسئلہ کو جاننے کی ضرورت ہے کہ رحمت کائنات صلی الله علیہ وسلم کی آمد کے مقاصد کیا تھے؟
مشن آمد مصطفیٰ صلی الله علیہ وسلم کیا ہیں؟
یہ سمجھنے والی بات ہے جو اکثر لوگ نہیں سمجھتے ہیں نہ ہی بیان کرتے ہیں۔
میری بے شمار جانیں ہوں تو وہ قربان جائیں سیدنا محمد کریم صلی الله علیہ وسلم پر،اور آپ کی ہر،ہر مبارک و عالی ادا پر۔ رسول اکرم صلی الله علیہ سے محبت کریں اور محبت کے تقاضوں کو پہچانیں کہ یہی حقیقی محبت رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم ہے۔هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ