رفیقِ حیات کی دیکھ ریکھ اور تکریم۔ (ایک موسوی نمونہ)

الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده، وبعد!
(قرآن)* کی ورق گردانی کرنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ ( قرآن ) عربی زبان میں نازل کیا گیا ہے، تاہم ایسی دسیوں آیات بھی ہیں جس میں یہ بتایا گیا ہے قرآن عربی زبان میں منزَّل ہوا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿وَإِنَّهُۥ لَتَنزِيلُ رَبِّ ٱلْعَٰلَمِينَ * نَزَلَ بِهِ ٱلرُّوحُ ٱلْأَمِينُ * عَلَىٰ قَلْبِكَ لِتَكُونَ مِنَ ٱلْمُنذِرِينَ * بِلِسَانٍ عَرَبِىٍّۢ مُّبِينٍۢ﴾

اور بلا شبہ یہ قرآن رب العالمین کا نازل کردہ ہے۔ جسے امانت دار فرشتہ جبریل لے کر اترا ہے۔ اس نے آپ کے دل پر القا کیا ہے تاکہ آپ ڈرانے والوں میں سے ہوں۔ *اور القا بھی فصیح عربی زبان میں کیا ہے*۔ ( *الشعراء*: 195 – 192 ).
قرآن کو عربی زبان میں نازل کرنے سے یہی مستفاد ہے کہ قرآن کو (عربی زبان) میں ہی سمجھا جائے۔ عربی زبان قرآن فہمی کے لیے ( اصل ) ہے، کسی کلمے کو شرعی جامہ پہنایا گیا ہو تو وہاں لفظی معنی مراد نہ ہوگا۔
فہمِ نصوصِ کتاب وسنت سے متعلق اہل السنۃ والجماعۃ کا طریقہ اور نہج بیان کرتے ہوئے شیخ *ابن عثیمین* رحمہ اللہ نے کچھ قواعد ذکر کیے ہیں، ایک قاعدے کی وضاحت کرتے ہوئے اس آیت *﴿بِلِسَانٍ عَرَبِىٍّۢ مُّبِينٍۢ﴾* کی تفسیر میں کہا: ( *مجموع وفتاوى ورسائل العثيمين*: ٣/٢٩٥ ):

وهذا يدلُّ على وجوبِ فهمه على ما يقتضيه ظاهره باللسان العربي إلا أن يمنع منه دليل شرعي.

بیوی کی عزت وتکریم

اس تحریر کا عنوان اور تمہیدی کلمات پڑھ کر آپ کو حیرانی ہوئی ہوگی کہ ہم نے عربی زبان کی اہمیت پر کیوں گفتگو کی ہے؟
در اصل جو بات آپ کو بتانے جا رہے ہیں اس کے لیے اس طرح کی تمہید ناگزیر تھی۔ واقعہ بتانے سے پہلے موسی علیہ السلام کی بابت اس آیتِ کریمہ کو پڑھ لیں:
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿إِذْ قَالَ مُوسَىٰ لِأَهْلِهِۦٓ إِنِّىٓ ءَانَسْتُ نَارًا سَـَٔاتِيكُم مِّنْهَا بِخَبَرٍ أَوْ ءَاتِيكُم بِشِهَابٍۢ قَبَسٍۢ لَّعَلَّكُمْ تَصْطَلُونَ﴾،

وہ وقت یاد کریں جب موسیٰ نے اپنی اہلیہ سے کہا: بے شک میں نے آگ دیکھی ہے، میں ابھی تمہارے پاس وہاں سے کوئی خبر یا سلگتا انگارا لاؤں گا، تاکہ تم تاپ سکو۔ ( *النمل*: 7).

قابلِ ذکر پہلو

آیت میں بتانے سمجھنے کی باتیں بہت ہیں، اور یہ آیت دیگر مقامات پر بھی ہے، سبھی آیات کو سامنے رکھ کر ہی مجموعی گفتگو ہو سکتی ہے۔ مجھے یہاں بس ایک پہلو بتانا ہے۔
*موسیٰ* علیہ السلام اپنی بیوی کے ہمراہ تھے، مدین سے مصر کا قصد تھا، دورانِ سفر ایک رات آپ کے لیے دو مشکلیں تھیں:
١)- صحیح راستے کا تعین۔
٢)- اور سردی سے نمٹنے کے لیے آگ۔
موسیٰ علیہ السلام اپنی رفیقِ حیات کو ایک مامون جگہ ٹہرایا اور راستے کی تلاش اور آگ کے حصول کے لیے نکل پڑے، جاتے ہوئے آپ اپنی عزیز اہلیہ سے کہا: *﴿سَـَٔاتِيكُم مِّنْهَا بِخَبَرٍ﴾*.

حرف الاستقبال

قرآن نے موسیٰ علیہ السلام کی اس حکایت کو اور آپ کی اپنی زوجہ سے ہوئی گفتگو کو ( عربی زبان ) میں بیان کیا ہے۔
موسیٰ علیہ السلام کے *﴿سَـَٔاتِيكُم﴾*، کہنے میں دو اہم باتیں ہیں جسے ہم نے ( عنوان ) میں ذکر کیا ہے۔
عربی زبان میں ( فعل مضارع ) دو زمانوں کو شامل ہے، ایک زمانۂ حال دوسرا مستقبل کا زمانہ۔
کلام کے سیاق وسباق سے حال یا مستقبل کا معنی مراد لیا جاتا ہے۔ البتہ جب ( فعل مضارع ) پر ( *س/ سوف* ) داخل ہو، جسے اصطلاح میں ( *حرف التنفیس، حرف الاستقبال* ) کہتے ہیں۔ تو ( فعل مضارع ) کو مستقبل کے لیے خاص کر دیا جاتا ہے۔
*التنفیس* کا مطلب ہے، وسعت اور کشادگی، یعنی ( فعل مضارع ) کو ( حال ) میں مقید نہیں کیا جائے گا بلکہ حرف ( *س/ سوف* ) سے فعل کو حال سے مستقبل کی طرف کر دیا جاتا ہے۔
گویا اس فعل کو انجام دینے میں وسعت دے دی گئی ہے، اسی لیے اس حرف کو (حرف التنفیس) یا (حرف الاستقبال) کہتے ہیں۔
پھر علماءِ لغت نے حرف (س) اور (سوف) میں فرق کیا ہے۔
(س) میں بنسبت (سوف) کے قریبی معنی آتا ہے، یعنی فعل مضارع پر حرف (سوف) آنے سے حال اور مستقبل کا زمنی فاصلہ طویل ہو جاتا ہے جب کہ (س) داخل ہونے سے حال اور مستقبل کا زمنی فاصلہ کم ہو جاتا ہے۔

اصل بات

مذکورہ تفصیل اگر اچھی طرح سمجھ لیے ہوں تو اب غور کریں موسیٰ علیہ السلام اپنی رفیقِ حیات کو اطمنان بخش جگہ رکا کر کس درجے کی تسلی آمیز بات کہہ کر رخصت ہو رہے ہیں۔
*﴿سَـَٔاتِيكُم﴾*، یعنی میں جو راستے کی تلاش اور آگ کے حصول میں جا رہا ہوں ایسا نہیں کہ انتظار کی گھڑی طویل ہو جائے، آپ کو نہ تنہائی کا خوف ہوگا اور نہ ہی صحرائے وحشت سے آپ گھبراہٹ محسوس کریں گے، میں اس سے پہلے ہی لوٹ آؤں گا، کہا: *﴿سَـَٔاتِيكُم﴾*.
یعنی جانے آنے میں وقت لگے گا ہی مگر تسلی کے لیے کہا *﴿سَـَٔاتِيكُم﴾*، فعل مضارع پر حرف ( س ) سے قلیل مدت میں لوٹ آنے کا معنی آتا ہے۔
ایک اور بات بھی ہے، اگر موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ اس سفر میں صرف آپ کی بیوی ہی تھی، تیسرا کوئی نہ تھا تو موسیٰ علیہ السلام نے ( *سآتيك* ) کی بجائے صیغۂ جمع میں خطاب کیا *﴿سَـَٔاتِيكُم﴾*۔
یہ خطاب دلالت کرتا ہے کہ آپ اپنی بیوی سے اچھے برتاؤ کے ساتھ ساتھ الفاظ میں بھی کس قدر تکریم اور عزت کو ملحوظ رکھا تھا!!

فائدہ

جسے شوق ہو اور میسر ہو تو ان کتابوں کی طرف رجوع کریں:
١)- تفسير البيضاوي: ٢/٢١٩.
٢)- حاشية الشهاب على البيضاوي: ٧/٣٣.
٣)- تفسير أبي حيان: ٨/٢١٠.
٤)- تفسير أبي السعود: ٦/٢٧٣.
٦ رجب ١٤٤٣ھ، الثلاثاء

*محمد معاذ أبو قحافة*

یہ بھی پڑھیں: قرآن کی ایک عظیم الشان پیشن گوئی