مدارس کی اصلاح کی فکر کرنے والے تمام احباب مدارس کی اصلاح فیس بک پر دل کھول کر کر رہے ہیں اور بالخصوص وہ عناصر جنہوں نے مدارس میں باقاعدہ نہیں پڑھا بس کسی سے سن لیا یا سوشل میڈیائی ویڈیو کلپس دیکھ لیے اور پھر نہ پوچھیں کہ۔۔۔ خیر میرے عزیز شاگرد زید محسن ما شاء اللہ اچھا لکھنا شروع ہو گئے ہیں اور اس کی صرف ایک وجہ ہے کہ زید محسن نے لکھنے سے پہلے مطالعہ کرنا اور پڑھنا سیکھا ہے تو لکھنا شروع کر دیا ہے۔ فی الحال اتنا لکھا کافی جانیں اگر ہضم ہو جائے تو۔۔۔ زید بیٹا خوش رہیں اللھم زد فزد۔
راہِ اعتدال اپنائیے! از زید محسن
گزشتہ رات ایك تہلكہ خیز ویڈیو نشر ہوئی اور جنگل میں آگ كی طرح پھیل گئی، ہر طرف سے گونج اٹھی، شدید الفاظ میں مذمتیں ہوئیں، سخت تنقیدیں بھی ہوئیں اور نا مناسب رویئے پر ایسا ہی ردِ عمل آنا چاہئے تھا۔
یقینا اصلاح اور تنقید سے بالا ہم میں سے كوئی نہیں، اور خاص كر جن كو رب نے منزلت دی ہے، كسی مقام پر پہنچایا ہے، علومِ نبویہ كا وارث بنایا ہے ان كی طرف سے ایسے تكلیف دہ رویے كچھ زیادہ غمناك ہوتے ہیں۔۔۔ اور اس سے بھی زیادہ غم كی بات یہ كہ نا حق كو جانشین با دیا گیا تو معاملہ مزید گھمبیر ہو گیا۔۔۔ اور كیا ہی اچھا ہوا كہ مدرسے میں ہونے والے اس مسئلے پر سب سے زیادہ ایكشن بھی مدارس والوں نے ہی لیا علماء وطلباء نے ہی سب سے زیادہ غصے كا اظہار كیا۔۔۔ اور ایسے معاملات كا حق بھی یہی ہے۔
لیكن اب جو اس ایك معاملہ كو لے كر كچھ طوفانِ بد تمیزی بپا ہو رہا ہے، كہ تمام ہی مدارس وجامعات كو ایك ہی لاٹھی سے ہانكے جانے والا برتاو كیا جا رہا ہے یہ بھی قابلِ توجہ بات ہے، اس ایك مسئلہ كی آڑ میں كتنے ہی مدارس پر بے جا تنقیدات كی جا رہی ہیں اور كتنے جامعات پر بكواسات كے پلندے الٹائے جا رہے ہیں۔۔۔ پھر بات وہی ہے كے نا قابلِ اصلاح یعنی كامل ومكمل كوئی نہیں لیكن اس كا مطلب ہر گز یہ بھی نہیں كہ ساری ہی سب وشتم كے قابل ہیں ، كہ سالہا سال سے نكللنے والے ثمرات كو بھلا دیا جائے اور بے جا تنقید كی زد میں سب كو لپیٹ دیا جائے۔
كچھ تحریروں میں مدرسے میں ہونے والے مظالم كی فہرستیں بھی مرتب كی گئیں ہیں، تو كچھ فارغ التحصیل افراد نے حقِ نمك اس انداز سے بھی ادا كیا ہے كہ تمام تر نفرت آمیز چیزوں كو یكجا كر كے یوں سامنے ركھ دیا ہے كہ جیسے ان برائیوں كے علاوہ كبھی كوئی اچھائی اس طرف سے نكلی ہی نہ ہو۔۔۔۔گویا كہ ہمیشہ سے بادِ سموم كے تھپیڑے ہی پڑے ہوں اور باہر نكل كر ہی معلوم ہوا ہو كہ بادِ صبا كا رخ كسی اور جانب تھا۔
یاد ركھیں!
كسی بھی جگہ سے مكمل اتفاق یا مكمل اختلاف بہت مشكل امر ہے، لیكن ہمیشہ فیصلہ ان باتوں پر ہوتا ہے جن كا پلڑا بھاری ہو، اگر آپ كے ادارے میں اچھائیوں كا پلڑا واقعتا ہوا میں ہے اور برائیوں كا پلڑا بھاری ہو چكا ہے تو بلا شبہ آپ اپنے ادارے كے پرخچے اڑا دیجئے۔۔۔ لیكن صاحب یہ تو كہیں كا انصاف نہ ہوا نا كہ ان كو بھی اپنے ساتھ لے ڈوبنے پر تُلے رہیں جو ان چیزوں سے پاك ہیں۔
میں ذیل میں ایك فہرست دے دیتا ہوں، یقین جانیں آج جامعہ میں پڑھتے ہوئے آٹھ سال كا طویل عرصہ ہو گیا ہے، اس عرصے میں طویل عرصہ ہاسٹل میں بھی گزارا ہے لیكن ہمیں بھی یہ باتیں پڑھ كر ایسا لگا كہ كسی نئی دنیا سے متعارف ہو رہے ہوں۔۔۔ چند ایك آپ بھی ملاحظہ كیجئے:
1۔ مدراس میں احترام اور تعظیم کے نام پر طلباء کرام کے عزت نفس کو ختم کرنا۔
2۔ اداب اور احترام کے نام پر بعض مدارس میں طلباء کو نفسیاتی مریض بنانا۔
3۔ بزرگوں اور اکابر کی تعظیم میں غلو۔
4۔ مروجہ مناظرین اور ان کے مناظرے۔
5۔ مخالف مسالک کے علماء اور متبعین کے لئے طلباء کرام کے دلوں میں نفرت اور حقارت پیدا کرنا۔
6۔ عصری علوم کی بے جا مخالفت۔
7۔ عرب علماء کرام سے علم اور تقویٰ کی نفی کرنا۔
8۔ تعلیم یافتہ اور سنجیدہ نوجوانوں کو محض چند ظاہری مظاہر کی وجہ سےمغربیت زدہ قرار دینا۔
9۔ متقدمین کے علوم سے دانستہ یا نادانستہ طور پرطلباء کرام کو دور رکھنا۔
10۔ سوال اٹھانے کی حوصلہ شکنی کرنا۔
11۔ طلباء کرام کو کالج اور یونیورسٹی کے سٹوڈنٹس سے دور رہنے کی تلقین کرنا۔
12۔ طلباء کرام کو اکابر پر اعتماد کے نام پر دماغ بندی کے دلدل میں دھکیلنا۔
اب سچ پوچھئے تو یہ فہرست ہمارے لئے بھی ایك نئی دنیا سامنے لے كر آئی۔۔۔ كیونكہ نہ ہی تو ہمارے اساتذہ نے تعظیم كو اتنا گھول كر پلایا كہ اپنی عزت نفس جائے یا نفسیاتی مریض بن جائیں۔ بلكہ ہمیں تو حوصلہ دینے والے آگے بڑھانے والے اور ہماری عزت كرنے والے اساتذہ نصیب ہوئے ہیں۔
نہ ہی تو ہمیں كسی سے ملاقات سے روكا، نہ كبھی كسی تعلیم یافتہ كو ہمارے سامنے جھڑكا، نہ صرف اكابر تك محدود كیا۔۔۔ نہ سوال پر ٹوكا، نہ تنقید كرنے پر سزائیں دیں بلكہ ہمارے اساتذہ میں تو وہ بھی جنہوں نے ہماری اس وقت حوصلہ افزائی كی جب ہم نے اكابر میں سے كسی سے سخت اختلاف كیا۔۔۔ اسی طرح عصری تعلیم بھی ہمیں زبردستی دی گئی كہ ہم تو آرام كو ترجیح دیدے تھے لیكن ہمیشہ ہمیں دنیا كے ساتھ جینے كی تلقین كی۔۔۔
اسی طرح غیر مسلكی علماء كا بٖغض وعناد بھی نہ گھولا۔۔۔
خلاصہ یہ كہ ہر كسی كو ایك جیسا سمجھنا چھوڑ دیں، تنقید در تنقید سے دامن بچائیں، غلط كو غلط كہنے كا مقصد یہ نہیں كہ ساری اچھائیاں بھلا دیں اور یك جنبشِ قلم سے سارا وجود ہی نا پاك كر دیں۔۔۔ اور اس كیلئے ضروری ہے كہ ہر كام میں راہِ اعتدال كو اپنائیں۔۔۔ جو ظالم ہے اسے ظالم كہیں اور جو ظلم سے بری ہے س كو الگ فہرست میں ركھیں۔
زید محسن