سوال (6084)

حَدَّثَنَا وَکِیعٌ، عَنْ مُوسَی بْنِ عُمَیْرٍ، عَنْ عَلْقَمَةَ بْنِ وَائِلِ بْنِ حُجْرٍ، عَنْ أَبِیهِ، قَالَ: رَأَیْتُ النَّبِیَّ صَلَّی اللَّهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ وَضَعَ یَمِینَهُ عَلَی شِمَالِهِ فِی الصَّلاَةِ تَحْتَ السُّرَّةِ۔

اس حدیث کا کیا حکم ہے؟
حضرت وائل بن حجر سے روایت میں ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو نماز میں اپنا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے رکھتے ہوئے دیکھا ہے۔ [مصنف ابن ابی شیبه حدیث نمبر: 3959 بترقیم عوامه]

جواب

وائل بن حجر رضی اللہ عنہ والی یہ روایت “تحت السرہ” کے الفاظ کے ساتھ جس نسخہ سے نقل کی گئی ہے وہ نسخہ ہی معتبر نہیں ہے۔ معتبر نسخوں میں “تحت السره” کا اضافہ موجود ہی نہیں ہے۔

٣٩٨١ – حدثنا وكيع عن موسى بن عمير عن علقمة (بن) وائل بن حجر عن أبيه قال: رأيت النبي -ﷺ- وضع يمينه على شماله في الصلاة۔ (المصنف – ابن أبي شيبة,364/3)

نماز میں زیر ناف ہاتھ باندھنے کے حوالے سے کوئی روایت بھی ثابت نہیں۔ ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب

فضیلۃ الباحث ابو زرعہ احمد بن احتشام حفظہ اللہ

ہماری معلومات کے مطابق تحت السرہ والی روایات ضعیف ہیں، یا بالکل بے بنیاد ہیں، باقی فوق السرۃ یا علی الصدر والی روایات صحیح ہیں، صحیح البخاری والی روایت پر غور کریں تو یہ ہاتھ نیچے نہیں جاتا۔
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں۔

“كَانَ النَّاسُ يُؤْمَرُونَ أَنْ يَضَعَ الرَّجُلُ الْيَدَ الْيُمْنَى عَلَى ذِرَاعِهِ الْيُسْرَى فِي الصَّلَاةِ” [صحيح البخاري: 740]

«لوگوں کو حکم دیا جاتا تھا کہ نماز میں دایاں ہاتھ بائیں کلائی پر رکھیں»

فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ

آج ایک دوسرے گروپ میں اسی مسئلہ پر تفصیل کی ضرورت پڑھی تو اپنی ایک پرانی تحریر وتحقیق کی تلاش میں یہ والی تحریر سامنے آئی تو اس پر چند باتیں عرض کیے دیتا ہوں۔
پہلی روایت سند ومتنا ہر دو اعتبار سے غیر ثابت ہے۔
اسی پہلی روایت پر میرا مفصل مضمون موجود ہے۔
سند میں راوی عقبہ بن صبھان نہیں ہے اور صاحب تحریر نے ایک ثقہ راوی کی توثیق یہاں لکھ دی ہے جو بدترین جھوٹ وخیانت ہے۔
عقبہ بن صبھان نہیں بلکہ صھبان ہے جو تقریب کا راوی اور ثقہ ہے اس کے شیوخ میں سیدنا علی المرتضی رضی الله عنہ کا کوئی کہیں ذکر موجود نہیں نہ ہی یہ ان سے روایت میں معروف ہیں اسی طرح جبکہ راوی تو اسانید میں عقبہ بن بیان، یا عقبہ بن ظہیر آیا ہے۔
تفصیل ہمارے مضمون میں ہے۔
دوسری روایت جو مصنف ابن أبی شیبہ سے نقل کی ہے اس کے معتبر وقدیم نسخوں میں یہ تحت السرة کی زیادت نہیں ہے حتی کہ علماء احناف سے علامہ زیلعی حنفی ،عینی،ابن الھمام،ابن الحاج،علی القاری کسی نے بھی اس روایت کو نقل کرتے ہوئے اس زیادت کو ذکر نہیں کیا ہے جبکہ یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی موقف وتائید میں ہر طرح کی روایات پیش اور نقل کرتے ہیں چاہے وہ صریح غیر صریح، ضعیف ہی کیوں نہ ہوں۔
اسی طرح مسند أحمد سنن بیھقی، معجم کبیر، تحفة الأشراف، جامع المسانید والسنن وغیرہ کتب میں بھی اس زیادت کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
سواے عوامہ اور اس کے متعصب پیروکار لوگوں کے۔
اس کے بعد مسند زید نامی کتاب ہی ساری من گھڑت، باطل کتاب ہے جو ایک ہی سند سے مروی ہے اس کتاب کے باطل وغیر ثابت ہونے پر میں نے بعض اہم اصول وقواعد اور سخت جرح ائمہ محدثین سے سری نگر کے ایک فاضل عالم دین مولانا مدثر جمال کے مضمون پر نظر ثانی کرتے ہوئے لکھیں تھیں تو ایک من گھڑت کتاب سے بالجزم دلیل پیش کرنا انہی لوگوں کا کام ہے جو علوم حدیث اور فکر آخرت سے غافل وبے پرواہ ہیں۔
سیدنا علی المرتضی رضی الله عنہ سے جو روایت بھی تحت السرۃ کے الفاظ سے پیش کی جاتی ہے اس میں مرکزی راوی عبد الرحمن بن اسحاق الکوفی بالاتفاق ضعیف سوء حفظ کا مرتکب ہے۔
باقی رہ گئے آثار واقوال تو وہ حجت و دلیل نہیں ہیں اصل چیز جو ان کی بنیاد تھی اس کی حقیقت مختصر مگر جامع بیان کر دی ہے۔ رب العالمین عدل وانصاف اور دیانت علمی کا حقیقی ترجمان و پاسبان بنائیں اور حق سے چشم پوشی کرنے اور تعصب کی عینک پہننے سے محفوظ رکھیں۔
اس میں مصنف ابن أبی شیبہ والی روایت کی بھی مختصر وضاحت ہے۔

فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ