رمضان کھانے پینے کا مہینہ؟؟
رمضان میں کھانے پینے کا شغلِ محض بنا لینا نہایت ناپسندیدہ و مذموم فعل ہے۔ ہمارے ہاں عموماً اس ماہِ مبارک کو نت نئے کھانے اور طرح طرح کی ڈشز میں ضائع کر دیا جاتا ہے۔ بلکہ عورتیں باقاعدہ ریسپیز سنبھال کر رکھتی ہیں کہ انہیں رمضان میں ٹرائی کریں گے پھر کچھ یوٹیوبر باورچی بھی سرگرم ہو جاتے ہیں، افطاری میں یہ بنائیں اور سحری کو یوں مزیدار کریں۔ اور بعض مرد حضرات کی فرمائشیں ختم نہیں ہوتیں، گھریلو خواتین پر بوجھ کم کر کے انہیں نیکی وعبادت کا موقع فراہم کرنے کی بجائے، سارا دن کچن میں لگائے رکھتے ہیں، حالانکہ اس ماہ میں تو کچن کی مصروفیات صرف ضروری کھانے تک محدود ہوجانی چاہیے۔ زبان کے چسکہ جات کے لیے بقیہ سال بہت طویل ہوتا ہے۔ سلف صالحین ایسے طرز عمل کی مذمت کرتے تھے۔
جیسا کہ امام حسن بصری رحمہ اللہ (١١٠هـ) فرماتے ہیں :
«صُمْ وَلَا تَبْغِ فِي صَوْمِكَ».
’’روزہ رکھو، اور اپنے روزے میں سرکشی نہ کرو۔‘‘
پوچھا گیا، روزے میں سرکشی کیا ہوتی ہے؟ فرمایا:
«أَنْ يَقُولَ الرَّجُلُ: ارْفَعُوا لِي كَذَا، ارْفَعُوا لِي كَذَا، فَإِنِّي أُرِيدُ الصَّوْمَ غَدًا».
’’بندہ کہے میں نے صبح روزہ رکھنا ہے، اس لیے مجھے فلاں کھانا پیش کرو، فلاں پیش کرو۔‘‘
(الزهد لابن المبارك : ٦١٧)
بلکہ سلف صالحین کا کھانے میں توسع اور مشغولیت کا وہ انداز ہی نہیں تھا جو ہمارے ہاں دَر آیا ہے۔
جیسا کہ امام اسحاق بن راہویہ رحمہ اللہ (٢٣٨هـ) فرماتے ہیں :
«أن أصحاب النبي ﷺ كانوا لا يَشتَغِلون بِالأطعمات شُغلَ أهل زَمانِنا».
’’نبی کریم ﷺ کے صحابہ کھانے پینے میں اس طرح مصروف نہیں ہوتے تھے جس طرح کہ ہمارے زمانے کے لوگ مشغول ہو جاتے ہیں۔‘‘
(مسائل حرب الكرماني كتاب الطهارة والصلاة – ت السريع، صـ ٥٦٧)
امام إسحاق رحمہ اللہ نے صدیوں قبل یہ بات فرمائی۔
فكيف لو رأى أهل زماننا. والله المستعان.
حافظ محمد طاهر حفظہ اللہ