سوال (4108)
رمضان المبارک کے روزوں کا فدیہ دینے کے بارے میں کیا حکم ہے؟ جس سال روزے چھوڑے ہوں، اسی سال دینا چاہیے یا تاخیر بھی ہو سکتی ہے؟
جواب
غیر ضروری تاخیر صحیح نہیں ہے، یہ اللہ تعالیٰ کا ادھار ہے، جو آپ نے ادا کرنا ہے، اگر سارے کام دنیا کے ہوتے ہیں تو اس میں تاخیر کس چیز کی ہے، اللہ تعالیٰ کے فریضے کو جس قدر جلدی ہو، ادا کرنی چاہیے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
سائل: جزاك الله خيرا كثيرا وبارك الله فيك
شیخ محترم اصل میں مسئلہ یہ ہے کہ سائلہ حاملہ اور مرضعہ ہے، تو ان کا ارادہ تھا بعد میں روزوں کی قضائی دے دے گے، لیکن اہل حدیث عالم نے بیان کیا کہ حاملہ اور مرضعہ پر صرف فدیہ ہے اور اسی پر صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا عمل ہے اور ایسی عورت قصائی دے ہی نہیں سکتی اور یہ مسئلہ چند ایام پہلے ہی معلوم ہوا ہے، اس وجہ سے فدیہ کے بارے میں سوال کیا، شیخ محترم ساتھ ساتھ یہ بھی بتا دیں کہ کیا مسئلہ اسی طرح ہی ہے یا پھر قضائی بھی دے سکتے ہیں، ایک اور سوال یہ بھی تھا کہ اگر کوئی شخص کسی بھی شرعی عذر کے تحت فدیہ دیتا ہے تو فدیہ مطلقاً رمضان غیر رمضان دیا جا سکتا ہے یا صرف رمضان میں ہی ہو گا، اور جس کو فدیہ دیا ہے کیا اس کے لیے روزے رکھنا ضروری ہے یا وہ روزے نہ بھی رکھے تو فدیہ ادا ہو جائے گا۔
جواب: اگر وہ حاملہ اور مرضعہ ہوکر بھی روزے رکھتی ہے تو یہ تو بہت اچھی بات ہے، اگر وہ نہیں رکھ سکتی تو بعد میں رکھے گی، یہ بھی اولی اور افضل ہے، اگر وہ فدیے والی رخصت سے فائدہ اٹھالیتی ہے، تو یہ جائز ہے، سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کا یہ فتویٰ ہے، برصغیر کے سلفی علماء کا بھی یہی فتویٰ ہے، بس فدیہ جلدی دیں، جس کو دیں، اس کا مسکین ہونا ضروری ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ