سوال (691)
رمضان المبارک کی طاق راتوں میں سحری تک پروگرام رکھے جاتے ہیں ، وعظ و نصیحت سحری تک جاری رہتی ہے ، سحری کروا کر لوگوں کو رخصت دی جاتی ہے ، پچھلے سال کچھ لوگوں نے اس عمل کو صریح بدعت میں شمار کیا ہے ، اس سال انتظامیہ کے کچھ لوگ بضد ہیں کہ طاق رات کا ہی پروگرام رکھنا ہے اور دلیل یہ دیتے ہیں کہ وعظ و نصیحت بھی تو عبادت کی شکل ہے وغیرہ ، مذکورہ بالا عمل میں کچھ گنجائش نکالی جاسکتی ہے ۔
جواب
اگرچہ وعظ و نصیحت کے لیے کوئی وقت مقرر نہیں ہے ، صرف اس میں ترغیب دلائی گئی ہے کہ لوگ اکتاہٹ محسوس نہ کریں ، لیکن یہ بات بھی حقیقت ہے کہ رمضان کے آخری عشرے میں انفرادی عبادت کو ترجیح حاصل ہے ، بالخصوص معتکفین کے لیے کہ وہ اس کا خیال رکھیں ، وعظ و نصیحت جزوی طور پر ہے ، لیکن کلی طور پر اس کو رکھنا یہ بات محل نظر ہے ، اس کو افہام و تفہیم سے حل کیا جائے ، عرب میں بھی اور یہاں بھی تروایح کے بعد دو تین گھنٹے وقفہ دیا جاتا ہے ، پھر نوافل پڑھے جاتے ہیں ، یہ بھی جواز کے درجے میں ہے ، البتہ اس میں معتکفین کو یہ محسوس ہو رہا ہے کہ ہماری انفرادی عبادت میں خلل واقع ہو رہا ہے ، پھر ایسی جگہ رات کو نماز پڑھی جائے جہاں معتکفین کو تنگی محسوس نہ ہو ، بہرحال جو چیز جواز کے درجے میں ہیں اس کو کلی طور پہ فتوی لگا کر الگ نہیں کیا جا سکتا ہے ، بس یہ ہے کہ اس میں جو بگاڑ کا پہلو ہے اس کو درست کرنے کی ضرورت ہے ۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
یہ عمل بدعت ہو یا نا ہو خلاف سنت ضرور ہے نبی علیہ السلام بھی یہ عمل کر سکتے تھے لیکن آپ نے نہیں کیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبادت کی ترغیب دی عبادت کیسے کرنی ہے وہ نبی علیہ السلام کی سنت سے سیکھیں۔
فضیلۃ الباحث واجد اقبال حفظہ اللہ