رشک زمانہ لوگ
(مولانا عبد الرشید اٹاروی، وفات یکم نومبر 2011ء)
آپ نے ہماری چائے نوش کیوں نہ فرمائی ؟

میرے مشفق و مربی حضرت مولانا محمد اسحاق بھٹی رحمہ اللہ اپنی کتاب ”دبستان حدیث“ کی تحریر و تدوین میں مصروف تھے۔ ان دونوں میں ساندے گیا اور استاذ گرامی کی زیارت سے مشرف ہوا۔ گفت گو کے دوران میں انہوں نے پوچھا کہ جامعہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن میں کوئی بزرگ استاذ حضرت مولانا عبدالرشید اٹاروی صاحب بھی ہیں؟
عرض کیا: جی!
ہمیں ان سے شرف تلمذ بھی حاصل ہے۔
فرمانے لگے: مجھے سندھ سے جامعہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن کے ایک فیض یافتہ اہل علم کا ٹیلی فون آیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ” صوفی محمد عبداللہ رحمۃ اللہ علیہ؛ حالات ، خدمات ، آثار“ میں استاد محترم حضرت مولانا عبدالرشید اٹاروی صاحب کا تذکرہ نہیں آیا، حالاں کہ حضرت مولاناعبدالرشید اٹاروی صاحب نے اپنی دینی تعلیم حضرت صوفی محمد عبداللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے زیرِ اہتمام مدرسہ تعلیم الاسلام اوڈاں والا میں مکمل کی اور تب سے اب تک حضرت صوفی صاحب کے حکم سے وہیں تعلیم الاسلام میں تدریس کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
اب مجھے ان کے حالات زیست مطلوب ہیں تاکہ اگلی کتاب ”دبستان حدیث“ میں ان کے واقعات حیات سے اپنے خوانندگان محترم کو مطلع کر سکوں۔
میں نے ہامی بھرلی۔
یہ 2007ء کی بات کے۔ میں ان دنوں جامعہ تعلیم الاسلام میں زیر تعلیم تھا۔ استاذی حضرت مولانا ابو عبدالمنان عبدالرشید حلیم اٹاروی صاحب رحمۃ اللہ علیہ ہمیں الوجیز اور بدایۃ المجتہد کا درس دیتے تھے۔
میں نے یہ سارا قصہ ان کے گوش گزار کیا اور عرض کیا کہ وہ اپنے بارے میں کچھ معلومات فراہم کریں تو نوازش ہوگی، میرا وعدہ پورا ہو جائے گا اور میں حضرت بھٹی صاحب رحمہ اللہ کے روبر سرخ رو ہو سکوں گا۔
طے یہ ہوا کہ استاذ محترم کی خدمت میں ہم اس سلسلے میں سوال کریں گے اور وہ جواب سے سرفراز فرمائیں گے۔ چناں چہ یہ مرحلہ بہت سی نشستوں میں مکمل ہوا۔
استاذ محترم سبق مکمل کرنے کے بعد جماعت کے کمرے ہی میں چند منٹ مجھے عنایت فرماتے تاکہ میں ان سے ذاتی معلومات حاصل کرسکوں۔ اس مقصد کے لیے یہ وقت بہت کم تھا اس لیے میں نے عرض کیا کہ استاذ محترم! آپ چھٹی کے بعد ہمیں وقت دے دیں۔ انھوں نے کمال شفقت سے منظور فرمایا۔ ایک دن چھٹی کے بعد کمرہ نمبر 47 میں تشریف لے آئے۔ اس کمرے میں استاذ العلماء علامہ بنیامین طور رحمتہ اللہ علیہ کے خادم خاص حافظ محمد زکریا قصوری، حافظ شیخین توحیدی اور ان کے خالہ زاد محمد حسیب و قاری محمد عثمان ، حافظ انعام اللہ فائز اور راقم رہتے تھے۔ استاذ مکرم محترم کی آمد کے بعد میں نے حافظ محمد زکریا صاحب سے عرض کیا کہ وہ چائے کا بندوبست کریں۔ استاذ محترم نے سختی سے منع فرمایا۔ ہمارے اصرار پر انھوں نے اس شرط کے ساتھ چائے پینا منظور فرمائی کہ چائے کا بل وہ ادا فرمائیں گے۔ ہم نے عرض کیا ٹھیک ہے۔ آپ چائے نوش فرمائیں۔ ہم نے سمجھا کہ آپ بہ طور مروت ایسا کر رہے ہیں۔ انھوں نے چائے نوش فرمائی اور ساتھ ساتھ ہمیں اپنی حیات زندگی کے بارے میں معلومات سے بھی نوازتے رہے۔
جامعہ تعلیم الاسلام ماموں کانجن کے مرکزی دروازے کے ساتھ ہی حاجی شاکر صاحب مرحوم کی کینٹین تھی۔ شام کو سیر سپاٹے کے لیے جاتے ہوئے ہم نے حاجی صاحب کو چائے کا بل دیا تو انھوں نے وصول کرنے سے سختی سے انکار کردیا، انھوں نے بتایا کہ استاد محترم ان کو سختی سے منع کر گئے ہیں اور وہ یہ رقم خود ادا کریں گے۔
میں نے حاجی صاحب سے عرض کیا: استاد محترم بل دے گئے ہیں؟
کہنے لگے : نہیں۔
میں نے عرض کیا: تو پھر آپ کم سے وصول کرلیں اور استاذ محترم کو بتا دیجیے گا کہ بل ادا ہوچکا ہے۔
حاجی صاحب نے فرمایا: ناں بھئی ناں! حضرت صاحب مجھے سختی سے منع کر گئے ہیں، میں یہ بل ہرگز وصول نہیں کروں گا۔
چناں چہ حاجی صاحب نے ہم سے چائے کے پیسے نہیں لیے۔
حاجی صاحب بتایا کرتے تھے کہ انھوں نے صحیح بخاری شریف، حضرت مولانا مفتی عبدہ الفلاح فیروز پوری رحمۃ اللہ علیہ سے جامعہ محمدیہ اوکاڑہ میں پڑھی تھی۔
چند دن کے بعد حاجی صاحب نے ہمیں بتایا کہ آج حضرت اٹاروی صاحب چائے کے پیسے دے گئے ہیں۔
ہم نے استاد محترم سے دریافت کیا کہ آپ نے ہماری چائے نوش کیوں نہیں فرمائی؟
انھوں نے ارشاد فرمایا: جو استاذ اپنے شاگردوں سے کھاتا پیتا ہے وہ ان کی تربیت نہیں کر سکتا۔ طالب علم اس کے سامنے غلطی کرے گا لیکن وہ ٹوکنے اور اصلاح کرنے کی ہمت و جرات سے محروم رہے گا۔
اس سلسلے میں انھوں نے آخری بار مجھے گھر بلایا۔ مغرب کے بعد کجھور صابن فیکٹری والی مسجد میں پہنچنے کا حکم دیا۔ میں مغرب کی نماز پڑھ کر فوراً وہاں پہنچ گیا۔ سردی کا موسم تھا۔ استاذ محترم نماز کے اذکار و وظائف میں مشغول تھے۔ کافی دیر کے بعد یہ سلسلہ ختم کیا تو میں نے آگے بڑھ کر سلام عرض کیا۔ وہ مجھے گھر لے گئے۔ تسلی کے ساتھ میرے سوالات کے جوابات مرحمت فرمائے۔ ایک سوال کے جواب میں وہ آب دیدہ ہوگئے اور مجھے بھی آب دیدہ کر دیا اور کئی دن تک طبیعت مکدر رہی۔

حکیم مدثر محمد خاں