سوال (5600)

کیا اللہ کے نبیﷺ کے دور میں کوئی ایسا واقعہ ہوا ہو کہ کسی صحابی کے سامنے کسی نے نبی ﷺ کی گستاخی کی ہو اس صحابی نے اسے قتل کر دیا ہو اور بعد میں اللہ کے نبی ﷺ کو بتایا ہو؟

جواب

جی ایسا واقعہ صحیح روایت میں نابینا صحابی والا ملتا ہے اس صحابی نے قتل کے بعد بھی نہیں بتایا تھا لیکن رسول اللہ ﷺ کے اللہ کا واسطہ دینے پہ بتایا تھا جو سنن ابی داود کتاب الحدود حدیث نمبر 4361 میں ہے اور سنن نسائی میں حدیث نمبر 4075 ہے جسکو البانی اور شیخ زبیر علی زئی نے صحیح کہا ہے۔

حدثنا ابن عباس،” ان اعمى كانت له ام ولد تشتم النبي صلى الله عليه وسلم وتقع فيه فينهاها فلا تنتهي ويزجرها فلا تنزجر، قال: فلما كانت ذات ليلة جعلت تقع في النبي صلى الله عليه وسلم وتشتمه، فاخذ المغول فوضعه في بطنها واتكا عليها فقتلها فوقع بين رجليها طفل، فلطخت ما هناك بالدم فلما اصبح ذكر ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم فجمع الناس فقال: انشد الله رجلا فعل ما فعل لي عليه حق إلا قام فقام الاعمى يتخطى الناس وهو يتزلزل حتى قعد بين يدي النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله انا صاحبها كانت تشتمك وتقع فيك فانهاها فلا تنتهي وازجرها فلا تنزجر ولي منها ابنان مثل اللؤلؤتين وكانت بي رفيقة فلما كان البارحة جعلت تشتمك وتقع فيك فاخذت المغول فوضعته في بطنها واتكات عليها حتى قتلتها فقال النبي صلى الله عليه وسلم: الا اشهدوا ان دمها هدر”.

عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ ایک نابینا شخص کے پاس ایک ام ولد تھی جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیتی اور آپ کی ہجو کیا کرتی تھی، وہ نابینا اسے روکتا تھا لیکن وہ نہیں رکتی تھی، وہ اسے جھڑکتا تھا لیکن وہ کسی طرح باز نہیں آتی تھی حسب معمول ایک رات اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجو شروع کی، اور آپ کو گالیاں دینے لگی، تو اس (اندھے) نے ایک چھری لی اور اسے اس کے پیٹ پر رکھ کر خوب زور سے دبا کر اسے ہلاک کر دیا، اس کے دونوں پاؤں کے درمیان اس کے پیٹ سے ایک بچہ گرا جس نے اس جگہ کو جہاں وہ تھی خون سے لت پت کر دیا، جب صبح ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس حادثہ کا ذکر کیا گیا، آپ نے لوگوں کو اکٹھا کیا، اور فرمایا: ”جس نے یہ کیا ہے میں اس سے اللہ کا اور اپنے حق کا واسطہ دے کر کہتا ہوں کہ وہ کھڑا ہو جائے“ تو وہ اندھا کھڑا ہو گیا اور لوگوں کی گردنیں پھاندتے اور ہانپتے کانپتے آ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے بیٹھ گیا، اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول میں اس کا مولی ہوں، وہ آپ کو گالیاں دیتی اور آپ کی ہجو کیا کرتی تھی، میں اسے منع کرتا تھا لیکن وہ نہیں رکتی تھی، میں اسے جھڑکتا تھا لیکن وہ کسی صورت سے باز نہیں آتی تھی، میرے اس سے موتیوں کے مانند دو بچے ہیں، وہ مجھے بڑی محبوب تھی تو جب کل رات آئی حسب معمول وہ آپ کو گالیاں دینے لگی، اور ہجو کرنی شروع کی، میں نے ایک چھری اٹھائی اور اسے اس کے پیٹ پر رکھ کر خوب زور سے دبا دیا، وہ اس کے پیٹ میں گھس گئی یہاں تک کہ میں نے اسے مار ہی ڈالا، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگو! سنو تم گواہ رہنا کہ اس کا خون لغو ہے“ یہ تو سوال کا جواب ہو گیا۔ ویسے معاملہ حساس ہونے کی وجہ سے اسکی تھوڑی مزید وضاحت کر دینا بہتر سمجھتا ہوں۔ دیکھیں جب کوئی نبیﷺ کی گستاخی کرتا ہے تو کیا اسکو عدالت میں لے جانا چاہئے یا خود بھی قتل کر سکتے ہیں جیسے اس روایت میں ملتا ہے۔
تو اس بارے غالبا علامہ ابتسام الہی ظہیر حفظہ اللہ کا فتوی پڑھا تھا کہ پہلی بات تو یہی ہے کہ عدالت ہوتے ہوئے اسکو وہاں لے جانا ہی بہتر ہے ورنہ تو ہر کوئی دوسروں کو قتل کرنا شروع کر دے گا اور بہانے بنانے لگے گا جیسا کہ سری لنکا والے شخص کے ساتھ ہوا یا پھر خوشاب میں ایک مسلمان بینک منیجر کو اپنی ذاتی دشمنی پہ سیکورٹی گارڈ نے گستاخی کا بہانہ بنا کر قتل کر دیا اور لوگوں نے اسکو ہیرو بنانا چاہا مگر بعد میں بھانڈا پھوٹ گیا پس اصل حکم یہی ہے کہ عدالت میں لے جایا جائے جہاں اسکی سزا موجود ہے۔
لیکن اگر کسی کے پاس اتنا وقت نہیں یا وہ جذبات میں اتنا زیادہ آ جاتا ہے کہ کہ وہ قتل کر دیتا ہے تو اس کو عدالت میں پیش کیا جائے گا تو اس پہ پھر علامہ صاحب نے کہا تھا کہ یہاں عدالت کو چاہئے کہ وہ اس قاتل سے پہلے گستاخی کے واضح ثبوت مانگے اگر اسکے پاس واضح ثبوت نہ ہوں تو پھر اسکو ایک عام قاتل سمجھا جائے گا اور اسکو سزا دی جائے گی۔
لیکن اگر اسکے پاس واضح اور کلیئر گستاخی کے ثبوت ہوں تو پھر اس قاتل کو قصاص میں قتل نہیں کیا جائے گا ہاں تعزیرات میں حکومت اسکو پورا پس منظر دیکھ کر کوئی اور سزا دے سکتی ہے۔
تو میرا بھی اس معاملے میں یہی موقف ہے جو شیخ کا ہے۔

فضیلۃ العالم ارشد حفظہ اللہ