سوال (5032)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹیوں کے متعلق عاصف رضا علوی و دیگر ملعون روافض کے اعتراضات کا جواب دے دیں؟
جواب
پہلا اعتراض: لوگ کہتے ہیں کہ نبی کی چار بیٹیاں تھیں؟
جواب: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فقط ایک بیٹی نہیں بلکہ *چار بیٹیاں تھیں یہ بات لوگوں نے نہیں کی بلکہ قرآن کی آیت,احادیث اور امت کا اجماع اس پر دلیل ہے. جو آگے چل کر ذکر کریں گے ان شاءاللہ
دوسرا اعتراض: شریعت میں تو مشرک سے نکاح حرام ہے,پھر
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹیوں کا نکاح مشرکوں سے کیسا ہوگیا؟
جواب: اسلام میں مشرک سے نکاح کی حرمت کا حکم بعد میں نازل ہوا جس طرح ابتداء میں شراب حرام نہیں تھی بعد میں حرمت کا حکم نازل ہوا اسی طرح سے جن بنات رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا نکاح ہوا وہ حرمت نازل ہونے سے پہلے کا ہوا تھا,لہذا اعتراض باطل ہے.
تیسرا اعتراض: آپ کی کتابوں کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شادی کے وقت عمر, 25 سال تھی، 4 سال اولاد نہ ہوئی، 29سال میں ابراہیم ہوئے، 40 سال کی عمر میں نبوت ملی,نبوت سے 4 سال پہلے تینوں بیٹیوں کی شادی کردی, تو 6 سال میں تین بیٹیاں پیدا ہوگئی,جوان بھی ہوگئی اور شادیاں بھی ہوگئی؟
جواب: پہلی بات تو یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شادی 25 سال کی عمر میں ہوئی تھی. اس کی کوئی دلیل نہیں. یہ بلادلیل بے سند بات ہے.
غیرُثابت
دوسری بات اگر بالفرض ان کے اس نکارا حساب کو ایک لمحہ کے لیے مان بھی لیا جائے تب بھی یہ اپنی بات میں ناقص ثابت ہوں گے.
1. یہ بات ثابت نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹیوں کی شادی بلوغت کے بعد ہوئی…!!!
2. بلوغت کی طرح شادی کے الفاظ سے بھی دھوکہ دیا جبکہ ان روایات میں فقط نکاح کا ذکر ہے ناکہ رخصتی کا.
3. ان روافض کی کتب میں بھی نابالغ بچی حتی کہ دو دن کی بچی کے نکاح کو بھی معتبر قرار دیا گیا.
4. اب اگر ان کی اس بے بنیاد “کیلکولیشن ” کو بھی مان لیا جائے تب بھی ان کے حساب سے بھی 6 سال میں تین بیٹیوں کا پیدا ہونا اور نکاح ہونا تو ثابت ہوگیا.
اب ہم اللہ کی توفیق سے ثابت کرتے ہیں کہ بنات رسول کا منکر تو قرآن کا منکر ہے,وہ تو حدیث اور اجمائے امت کا منکر ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹیاں ایک سے ذائد تھیں قرآن سے دلیل:
يٰۤـاَيُّهَا النَّبِىُّ قُلْ لِّاَزۡوَاجِكَ وَبَنٰتِكَ وَنِسَآءِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ يُدۡنِيۡنَ عَلَيۡهِنَّ مِنۡ جَلَابِيۡبِهِنَّ ؕ [الاحزاب: 59]
اے نبی! اپنی بیویوں سے اور اپنی صاحبزادیوں(بیٹیوں) سے اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر چادریں لٹکایا کریں۔
اس آیت میں لفظ “بنت” نہیں بلکہ جمع کا لفظ” بنات” استعمال ہوا ہے جس کا معنی ہے “بیٹیاں” یہ آیت اس بات کی واضح دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹیاں ایک سے ذیادہ تھی جن کی تعداد الگ سے احادیث میں ثابت ہے کہ چار(بیٹیاں) تھی۔
چوتھااعتراض: کہتے ہیں کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹیاں ایک سے ذائد تھیں تو ان کا یا ان کی اولاد کا تذکرہ احادیث میں کیوں نہیں ملتا؟
جواب: یہ تو صریح بہتان اور روافض کی کم علمی اور دجل ہے کہ ان کا تذکرہ نہیں ملتا. احادیث سے بنات رسول اور ان کی اولاد کا ثبوت
. زینب بنت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور ان کی بیٹی امامہ رضی اللہ عنھا
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ،قَالَ: أَخْبَرَنَا مَالِكٌ،عَنْ عَامِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ،عَنْ عَمْرِو بْنِ سُلَيْمٍ الزُّرَقِيِّ،عَنْ أَبِي قَتَادَةَ الأَنْصَارِيِّ،أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ ﷺ كَانَ يُصَلِّي وَهُوَ حَامِلٌ أُمَامَةَ بِنْتَ زَيْنَبَ بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ،وَلِأَبِي العَاصِ بْنِ رَبِيعَةَ بْنِ عَبْدِ شَمْسٍ فَإِذَا سَجَدَ وَضَعَهَا،وَإِذَا قَامَ حَمَلَهَا، [بخاری: 516]
ہم سے عبداللہ بن یوسف تنیسی نے بیان کیا،انھوں نے کہا کہ ہمیں امام مالک نے عامر بن عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما سے خبر دی،انھوں نے عمرو بن سلیم زرقی سے،انھوں نے ابوقتادہ انصاری رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ ﷺ امامہ بنت زینب بنت رسول اللہ ﷺ کو (بعض اوقات) نماز پڑھتے وقت اٹھائے ہوتے تھے۔ ابوالعاص بن ربیعہ بن عبدشمس کی حدیث میں ہے کہ سجدہ میں جاتے تو اتار دیتے اور جب قیام فرماتے تو اٹھا لیتے۔
مذید احادیث میں بھی ان کا تذکرہ موجود ہے:
(مستدرک حاکم صفحہ 200جلد2. سندہ حسن)
(بخاری: 1253)
. دوسری بیٹی سیدہ رقیہ بنت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم:
مسند احمد: 490
إِنِّي تَخَلَّفْتُ يَوْمَ بَدْرٍ فَإِنِّي كُنْتُ أُمَرِّضُ رُقَيَّةَ بِنْتَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ مَاتَتْ۔
اس روایت میں واضح موجود ہے کہ(اس دن) رقیہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بیمار تھی.
سندہ، حسن
بخاری: 3130 میں بھی آپ رضی اللہ عنھا کا تذکرہ موجود ہے.
. تیسری بیٹی سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنھا:
بخاری: 5842
حَدَّثَنَا أَبُو اليَمَانِ،أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ،عَنِ الزُّهْرِيِّ،قَالَ: أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ: أَنَّهُ رَأَى عَلَى أُمِّ كُلْثُومٍ عَلَيْهَا السَّلاَمُ،بِنْتِ رَسُولِ اللَّهِ ﷺ،بُرْدَ حَرِيرٍ سِيَرَاءَ،
ہم سے ابوالیمان نے بیان کیا،کہا ہم کو شعیب نے خبر دی،ان سے زہری نے بیان کیا،انہیں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کی صاحبزادی ام کلثوم رضی اللہ عنہا کو زرد دھاری دار ریشمی جوڑا پہنے دیکھا۔
آپ سیدنا عثمان رضی اللہ عنھا کے نکاح میں تھی۔
(معرفۃ الصحابۃ لابی نعیم الاصبھانی: 239. سندہ، حسن)
. چوتھی بیٹی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا:
اس پر تو کسی کا اختلاف نہیں.
ان کا تذکرہ تو بے شمار احادیث میں موجود ہے کیونکہ آپ ,رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی وفات کے بعد تک زندہ رہیں۔ (بخاری: 240) (بخاری: 243)
نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بیٹیاں چار تھیں,اس پر امام نوی رحمہ اللہ نے امت کا اجمع نقل کیا ہے۔
فالبنات أربع بلا خلاف
وأول من ولد له القاسم، ثم زينب، ثم رقية، ثم أم كلثوم، ثم فاطمة،
تهذيب الأسماء واللغات ١/٢٦ — النووي (ت ٦٧٦)
لہذا کافروں کا یہ اعتراض کرنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صرف ایک بیٹی تھی یہ قرآن,حدیث اور اجمائے امت کا انکار ہے۔ ھذا کان ما عندی واللہ اعلم بالصواب
فضیلۃ الباحث ابو زرعہ احمد بن احتشام حفظہ اللہ