سوال (3294)
میرا سوال یہ ہیں کہ قضائے الٰہی اور رضائے الٰہی میں فرق اور جب اعلان کیا جائے تو قضائے الٰہی کہنا چاہیے یہ رضائے الٰہی کہنا چاہیے۔
جواب
میں ایک طالب علم ہونے کی حیثیت سے اس نتیجے پر پہنچا ہوں، قضاء اللہ کا فیصلہ، مشیت، تقدیر ہے، رضا یہ بھی اللہ تعالیٰ کی مشیت اور ارادہ میں ہے، لیکن اس کا تعلق اللہ تعالیٰ کی رضامندی اور رضوان سے ہے، جیسا کہ الفاظ سے ظاہر ہے، لیکن ہر قضاء رضا کو مستلزم نہیں ہے، البتہ ہر رضا قضاء کو مستلزم ہے، وہ مالک ہے۔ لہذا اس پر بات نہیں کی جا سکتی ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔
“لَا يُسْأَلُ عَمَّا يَفۡعَلُ وَهُمۡ يُسْأَلُونَ” [سورة الانبياء : 33]
«اس سے نہیں پوچھا جاتا اس کے متعلق جو وہ کرے اور ان سے پوچھاجاتا ہے»
“فَعَّالٌ لِّمَا يُرِيۡدُ” [سورة البروج : 16]
«کر گزرنے والا ہے جو چاہتا ہے»
اہل علم یہ بات جانتے ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ
شیخ محترم اس میں آپ نے قضا اور رضا میں جو نسبت بیان کی ہے وہ عموم خصوص مطلق کی بیان کی ہے لیکن اس پہ مجھے اشکال ہے کہ اس کا تو یہ مطلب ہے کہ پھر اللہ کی ہر رضا لازمی قضا ہو گی یعنی اللہ کا ارادہ شرعیہ لازمی پھر اللہ کا ارادہ کونیہ بنے گا، شیخ محترم کہیں ایسا تو نہیں کہ یہاں اللہ کی رضا سے جو آپ مراد لے رہے ہیں وہ اللہ کا ارادہ شرعیہ نہیں ہے؟
ہمارے ہاں دو اصطلاحات استعمال ہوتی ہیں.
پہلی اللہ کا ارادہ کونیہ اور دوسری اللہ کا ارادہ شرعیہ ہوتا ہے کونیہ کون سے ہے یعنی جو ہو جائے یعنی جو اللہ کی قضا ہو جو فائنل اللہ کا فیصلہ اس دنیا میں لاگو ہوتا ہے اسکو کونیہ کہتے ہیں جبکہ شرعیہ سے مراد وہ کام جو اللہ نے صاحب اختیار مخلوق پہ فرض کیے ہیں مثلا جھوٹ نہ بولنا نماز پڑھنا توحید کا اقرار کرنا وغیرہ,
ان دونوں کو نیچے سمجھتے ہیں,
اللہ کی تمام مخلوق کے افعال مندرجہ ذیل دو طرح کے ہوتے ہیں.
(1) جس میں مخلوق مجبور محض ہو یعنی اسکو اختیار نہ ہو جیسے سورج چاند کا نکلنا وغیرہ.
(2) دوسرے وہ افعال جس میں مخلوق کو اختیار دیا گیا ہو جیسے جن و انس کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنی مرضی سے کچھ کام کر سکتے ہیں لیکن یہاں اللہ نے اختیار دینے کے ساتھ حکم بھی دیا ہے کہ ان دو راستوں میں سے تم نے فلاں راستہ اختیار کرنا ہے اور یہ بات شریعت کے ذریعے بتائی گئی ہے پس اس لحاظ سے ان افعال کو مزید مندرجہ ذیل دو قسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔
2.1۔ یہ افعال شریعت کے مطابق ہوں یعنی اللہ کے ارادہ شرعیہ کے مطابق ہوں یعنی اللہ کی رضا کے مطابق ہوں مثلا امیر حمزہ کا اسلام قبول کرنا،
2.2۔ یہ افعال اللہ کی رضا یا ارادہ شرعیہ کے مخالف ہوں جیسے حبشی کا حمزہ رضی اللہ عنہ کو شہید کرنا۔
اب یہ اوپر جو تقسیم کی ہے انکو دیکھتے ہیں کہ ان میں ارادہ کونیہ کونسی ہے اور ارادہ شرعیہ کون سی ہے۔
اوپر جو پہلے نمبر پہ بیان کی گئی ہے یعنی چاند ستاروں کا چلنا تو یہ صرف ارادہ کونیہ ہے اس میں ارادہ شرعیہ کا کوئی دخل نہیں کیونکہ یہاں اختیار ہی نہیں اور ارادہ شرعیہ وہاں ہوتا ہے جہاں اختیار ہو۔
اوپر دوسرے میں پہلی قسم یعنی 2.1 میں جہاں امیر حمزہ کا اسلام لانا ہے وہ ارادہ کونیہ بھی ہے اور ارادہ شرعیہ بھی ہے یعنی دونوں ایک ہو گئے۔
اوپر دوسرے کی دوسری قسم یعنی 2.2 میں جہاں حبشی کا عمل ہے اوہاں رادہ کونیہ تو ہے لیکن ارادہ شرعیہ موجود نہیں ہے کیونکہ وہ کام یا فعل شریعت کے خلاف ہے.
پس خلاصہ مندرجہ ذیل نکلا
1۔ ہر کام لازمی میں ارادہ کونیہ ہوتا ہے یعنی اللہ کی قضا والا ہی ہوتا ہے۔
2۔ جس کام میں اختیار نہ ہو وہاں ارادہ شرعیہ نہیں ہوتا صرف کونیہ ہوتا ہے۔
3۔ جس کام میں مخلوق کو اختیار ہو وہاں ارادہ شریعہ اور کنیہ دونوں ہوتے ہیں لیکن یہ دونوں کبھی ایک بھی ہو سکتے ہیں کبھی مخالف بھی ہو سکتے ہیں.
اوپر میری اس بحث کو سمجھنے کے بعد اب اوپر سوال کو دیکھتے ہیں.
آپ سوال میں اگر ارادہ کونیہ کو قضا کہ لیں اور ارادہ شرعیہ کو رضا کہ لیں تو پھر بھی سوال کا جواب دینے سے پہلے ہمیں کچھ دیکھنا ہو گا کہ ہم کس مخلوق کے فعل کو دیکھ رہے ہیں اگر تو ہم فوت ہونے والے کے فعل کو دیکھ رہے ہیں تو اس فوت ہونے والے کے لحاظ سے وہ مجبور محض ہے اور یہ ارادہ کونیہ ہے اس میں ارادہ شرعیہ کا کوئی دخل نہیں یعنی یہ قضا الہی ہے رضا الہی کا معاملہ نہیں,
لیکن اگر ہم اس کو فوت کرنے والے سبب بننے والی صاحب اخٹیار مخلوق کا فعل دیکھ رہے ہیں کہ کس نے اسکو قتل کیا یا وجہ بنا چاہے وہ خود ہی ہو تو اس صورت میں ارادہ کونیہ اور ارادہ شرعیہ دونوں ہو سکتے ہیں لیکن اس صورت میں دونوں میں اختلاف بھی ہو سکتا ہے.
اس لیے اگر منطقی لحاظ سے دیکھنا ہے تو بہتر ہے قضائے الہی کہا جائے رضائے الہی بہتر نہیں البتہ ہمارے معاشرے میں منطقی لحاظ سے ایسا نہیں کہا جاتا نہ عوام کو ان بحثوں کا پتا ہے انکے ہاں قضائے الہی اور رضائے الہی ایک ہی معنی میں ہیں پس منطق کو ایک طرف رکھ کر اور عموم خصوص مطلق والی بات ایک ایک طرف رکھ کر اگر یہ کہ دیا جائے تو ایسی کوئی بات نہیں واللہ اعلم بالصواب
اس میں دوسری قسم میں ارادہ کونیہ یعنی قضا اور ارادہ شرعیہ یعنی رضا دونوں پائے جاتے ہیں تو اس میں نسبت ہو سکتی ہے۔
اس میں 2.1 میں تو نسبت تساوی ہے جبکہ 2.2 میں نسبت تباین ہے عموم خصوص کی نسبت نہیں۔
فضیلۃ الباحث ارشد محمود حفظہ اللہ
سوال: قضائے الہی اور رضائے الہی میں کیا فرق ہے؟ کسی فوتگی کا اعلان کرنا ہو تو قضائے الہی کہنا ہے یا رضائے الہی۔
جواب: رضائے الہی اور قضائے الہی میں فرق
بعض لوگ میت کا اعلان کرتے وقت کہتے ہیں فلاں شخص رضائے الہی سے فوت ہوگیا حالانکہ کہنا یہ چاہیے کہ فلاں شخص قضائے الہی سے فوت ہوگیا ہے۔ اس لیے کہ قضا اور رضا میں بڑا فرق ہے۔
قضا کا معنی: تقدیر الہی. نوشتہ تقدیر. فیصلہ اتفاق یا حادثہ (فیروز اللغات فارسی)
جب کہ رضا کا معنی: مرضی خوشنودی اور خوشی. لہذا جب اللہ تعالی کسی کے بارے فیصلہ نافذ کرتا ہے۔
اس کو قضا کہتے ہیں۔
اور جب کسی کام کی وجہ سے راضی ہوتا ہے تب اس وقت اس بندے پر رضا الہی کا ظہور ہوتا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالٰی ہے۔
رَضِیَ اللّٰهُ عَنۡهُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡهُ ؕ
اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی ۔ (مجادلہ 22)
ایک اور مقام پر فرمایا۔
لَقَدۡ رَضِیَ اللّٰهُ عَنِ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ۔
بیشک اللہ راضی ہوا ایمان والوں سے (الفتح 18)
ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔
وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا ؕ
اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا (مائدہ3)
مزید فرمایا۔
وَ لَوۡ اَنَّهُمۡ رَضُوۡا مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ وَ رَسُوۡلُهٗ۔
اور کیا اچھا ہوتا اگر وہ اس پر راضی ہوتے جو اللہ و رسول نے ان کو دیا۔ (توبہ 59)
یہ رہا قرآن مجید میں رضا کا استعمال جہاں تک قضا کا تعلق ہے تو متعدد آیات میں رب کریم میں لفظ قضا کو استعمال فرمایا ہے ان کو دیکھ کر پتہ چلتاہے کہ لفظ قضا کا معنی و مفہوم کیا ہے۔
اللہ تعالی نے فرمایا۔
وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعۡبُدُوۡۤا اِلَّاۤ اِیَّاهُ وَ بِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا ؕ۔
اور تمہارے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کو نہ پوجو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو (بنی اسرائیل 23)
او رفرمایا:
وَ اللّٰهُ یَقۡضِیۡ بِالۡحَقِّ۔
اور اللہ سچا فیصلہ فرماتا ہے۔ (مومن 20)
مزید فرمایا۔
فَلَمَّا قَضَیۡنَا عَلَیۡهِ الۡمَوۡتَ۔
پھر جب ہم نے اس پر موت کا حکم بھیجا (سبا 14)
ان تمام آیات بینات سے سے رضا اور قضا کامعنی کھل کر سامنے آ گیا۔
رضا سے اللہ تعالی کی مرضی، رضا مندی اور خوشنودی مراد ہے جب کہ قضا سے تقدیر فیصلہ اور موت مراد ہے،
قرآن مجید کی متعدد آیات میں موت کو لفظ قضا سے یاد فرمایا گیا لیکن کچھ لوگ موت کو رضائے الہی کی طرف منسوب کرتے ہیں اور بانگ دہل کہتے ہیں کہ فلاں رضائے الہی سے فوت ہوگیا حالانکہ موت سے رضائےالہی سے نہیں قضائے الہٰی سے واقع ہوتی ہے۔ رضا اور قضامیں بڑا فرق ہے۔ واللہ اعلم
فضیلۃ الباحث اظہر نذیر حفظہ اللہ



