سوال (5972)
ام المؤمنین عائشہ اور ام سلمہ ؓ سے روایت ہے کہ ابوحذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ بن عبدشمس نے سالم کو (جو کہ ایک انصاری عورت کے غلام تھے) منہ بولا بیٹا بنا لیا تھا، جس طرح کہ نبی اکرم ﷺ نے زید ؓ کو بنایا تھا، اور اپنی بھتیجی ہند بنت ولید بن عتبہ بن ربیعہ سے ان کا نکاح کرا دیا، زمانہ جاہلیت میں منہ بولے بیٹے کو لوگ اپنی طرف منسوب کرتے تھے اور اسے ان کی میراث بھی دی جاتی تھی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس سلسلہ میں آیت: ادعوهم لآبائهم سے فإخوانکم في الدين ومواليكم ١ ؎ تک نازل فرمائی تو وہ اپنے اصل باپ کی طرف منسوب ہونے لگے، اور جس کے باپ کا علم نہ ہوتا اسے مولیٰ اور دینی بھائی سمجھتے۔ پھر سہلہ بنت سہیل بن عمرو قرشی ثم عامری جو کہ ابوحذیفہ کی بیوی تھیں آئیں اور انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم سالم کو اپنا بیٹا سمجھتے تھے، وہ میرے اور ابوحذیفہ کے ساتھ ایک ہی گھر میں رہتے تھے، اور مجھے گھر کے کپڑوں میں کھلا دیکھتے تھے اب اللہ نے منہ بولے بیٹوں کے بارے میں جو حکم نازل فرما دیا ہے وہ آپ کو معلوم ہی ہے لہٰذا اب اس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے؟ تو نبی اکرم ﷺ نے ان سے فرمایا: انہیں دودھ پلا دو، چناچہ انہوں نے انہیں پانچ گھونٹ دودھ پلا دیا، اور وہ ان کے رضاعی بیٹے ہوگئے، اسی کے پیش نظر ام المؤمنین عائشہ ؓ اپنی بھانجیوں اور بھتیجیوں کو حکم دیتیں کہ وہ اس شخص کو پانچ گھونٹ دودھ پلا دیں جسے دیکھنا یا اس کے سامنے آنا چاہتی ہوں گرچہ وہ بڑی عمر کا آدمی ہی کیوں نہ ہو پھر وہ ان کے پاس آتا جاتا، لیکن ام المؤمنین ام سلمہ ؓ اور دیگر ازواج مطہرات نے اس قسم کی رضاعت کا انکار کیا جب تک کہ دودھ پلانا بچپن میں نہ ہو اور انہوں نے ام المؤمنین عائشہ ؓ سے کہا: اللہ کی قسم ہمیں یہ معلوم نہیں شاید یہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے صرف سالم کے لیے رخصت رہی ہو نہ کہ دیگر لوگوں کے لیے۔ [ابوداؤد: 2061]
جواب
جمہور کا موقف یہ ہے کہ رضاعت کبیر نہیں ہے، باقی سالم کے واقعے کو استثنا حاصل ہے، باقی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنھا قائل تھی، اس وجہ سے ہمارے ہاں بعض علماء قائل ہیں، ضرورت کے وقت اجازت دیتے ہیں، لیکن راجح یہ ہے کہ بڑی عمر کی رضاعت ثابت نہیں ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
بارك الله فيكم وعافاكم! راجح یہی ہے کہ رضاعت کبیر کا کوئی اعتبار نہیں ہے اور سالم والا واقعہ ان کے ساتھ خاص ہے، خیر القرون وبعد میں اس پر عمل نظر نہیں آتا ہے، کسی بھی مسئلہ کی تمام تفصیل و جزئیات جمع کرنے پر ہی اصل مسئلہ معلوم ہوتا ہے اور ایسا نہ کرنے پر آپ خطا اور غلطی کے مرتکب ہو سکتے ہیں۔
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ




