سوال
ہماری ایک دوست ہیں، ان کے شوہر جلد ہی ایک کمپنی سے ریٹائر ہو رہے ہیں۔ اس کمپنی میں انشورنس کا نظام ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر شوہر نے مثال کے طور پر ایک لاکھ روپے انشورنس میں دیے ہوں، اور ریٹائرمنٹ پر اسکے بدلے دو لاکھ روپے ملیں تو کیا یہ اضافی رقم (منافع) لینا جائز ہے؟ اگر ناجائز ہے تو کیا یہ رقم صدقہ کی جا سکتی ہے؟
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
جب کسی کمپنی یا ادارے سے کوئی ریٹائر ہوتا ہے، تو اس کو انشورنس یا فنڈ کی مد میں جو رقم ملتی ہے، وہ مختلف ذرائع سے جمع شدہ ہوتی ہے، جن کی نوعیت اور شرعی حیثیت الگ الگ ہے۔ عمومی طور پر یہ رقم تین اقسام پر مشتمل ہوتی ہے:
- ملازم کی اپنی تنخواہ سے کاٹی گئی رقم:
یہ رقم چونکہ ملازم کی اصل تنخواہ کا حصہ ہوتا ہے، اس لیے اس کا لینا شرعاً بالکل جائز ہے۔
- کمپنی کی طرف سے جمع کرائی گئی رقم:
یہ رقم کمپنی کی طرف سے ملازم کی کارکردگی یا وفاداری کی بنیاد پر ہوتی ہے۔ چونکہ یہ رقم کمپنی اپنی طرف سے بطور انعام یا تعاون دیتی ہے، لہٰذا یہ بھی حلال اور جائز ہے۔
- انشورنس یا بینک کی طرف سے منافع:
یہ تیسری قسم کی رقم سود کی بنیاد پر ہوتی ہے، یعنی ان پیسوں کو کسی سودی ادارے میں جمع کر کے اس پر منافع حاصل کیا جاتا ہے۔
چونکہ قرآن و سنت کی روشنی میں سود لینا اور دینا قطعی طور پر حرام ہے، اس لیے یہ حصہ اور رقم لینا جائز نہیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
“وَاَحَلَّ اللّٰهُ الۡبَيۡعَ وَحَرَّمَ الرِّبٰوا”. [البقرۃ: 275]
’’اللہ تعالیٰ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے‘‘۔
اس لیے پہلی دو قسم کی رقم لینا جائز اور تیسری قسم یعنی سودی منافع لینا ناجائز اور حرام ہے۔
سودی رقم کے استعمال سے بچنے کے لیے کل رقم سے سودی حصہ علیحدہ کردیا جائے اور اس کے لیے کمپنی یا متعلقہ ادارے سے یہ تفصیل معلوم کی جائے کہ اس فنڈ میں ملازم کی تنخواہ سے کاٹی گئی اصل رقم کتنی ہے؟ کمپنی کی طرف سے بطور انعام دی گئی رقم کتنی اور بینک یا ادارے کی طرف سے بطور منافع (سود) دی گئی رقم کتنی ہے؟
پھر اس حساب سے پہلی دو قسم کی رقم اور تیسری قسم کی رقم کو الگ الگ کردیا جائے۔
اور رہا یہ سوال کہ کیا یہ سودی رقم صدقہ کی جاسکتی ہے؟ تو عام اصول کے مطابق حرام مال کا صدقہ کرنا بھی جائز نہیں، کیونکہ صدقہ کے لیے مال کا طیب و پاکیزہ ہونا شرط ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
“إِنَّ اللَّهَ طَيِّبٌ لَا يَقْبَلُ إِلَّا طَيِّبًا”. [سنن الترمذی: 2989]
’’اللہ پاک ہے اور حلال و پاک چیز کو ہی قبول کرتا ہے‘‘۔
لہٰذا سود یا کسی بھی طریقے سے حاصل ہونے والے حرام مال یا رقم کو خود استعمال کرنا یا اسکا صدقہ کرنا درست نہیں ہے۔ اس طرح کے مال کے تصرف کے لیے اہل علم نے کئی مخصوص صورتیں اور حالات بیان فرمائے ہیں، جیسے:
1.کوئی شخص بھوک یا فاقے سے مر رہا ہو، اور اس کے لیے کوئی اور حلال ذریعہ نہ ہو تو اس سے اسکے لیے کھانے پینے کا بندوبست کردیا جائے۔
2.کسی پر سود کا قرض چڑھا ہو، تو اس مال کے ذریعے اس قرض کو اتارنے میں مدد دی جا سکتی ہے۔
3.کسی بیمار شخص کا فوری آپریشن درکار ہو، اگر علاج نہ ہوا تو جان کو خطرہ ہو، اس کا علاج کروایا جاسکتا ہے۔
4.کوئی مظلوم ناجائز کیس میں قید ہو اور اس کی اس سے قانونی مدد کردی جائے۔
5.رفاہی کام جیسے نالی، لیٹرین یا عام استعمال کی جگہ وغیرہ بنوانے میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔
اس طرح کا حرام کا مال ان جیسے امور پر بغیر ثواب کی نیت کے صرف کردیا جائے، ان جیسے حالات اور صورتوں کے علاوہ حرام کے مال جیسے سود وغیرہ کا استعمال جائز اور درست نہیں ہے۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ عبد الحنان سامرودی حفظہ اللہ