سوال
دو افراد نے کاروبار شروع کیا ہے، جس میں ایک کی محنت ہے اور دوسرے کا سرمایہ ہے۔ ایک شخص نے کسی کو رکشہ خرید کر دیا ہے، اور ان کے درمیان یہ طے پایا ہے کہ رکشہ چلانے والا ہر مہینے رکشہ مالک کو دس ہزار روپے دے گا، اور رکشے کی ٹوٹ پھوٹ رکشہ چلانے والے کے ذمے ہوگی۔
کیا اس طرح منافع فکس کر لینا درست ہے؟ کیا یہ سود میں تو شمار نہیں ہوگا؟
جواب
الحمد لله وحده، والصلاة والسلام على من لا نبي بعده!
اگر دو فریق مشترکہ کاروبار کرتے ہیں، ایک شخص سرمایہ کاری کرتا ہے، اور دوسرا محنت کرتا ہے، لیکن سرمایہ کار ساتھ یہ شرط رکھتا ہے کہ آپ کو نفع ہو یا نقصان، میرا سرمایہ برقرار رہے گا، میں صرف منافع لوں گا، نقصان میں شریک نہیں ہوں گا۔
مشترکہ کاروبار کی یہ صورت شرعاً ناجائز ہے، کیونکہ اس میں ایک فریق کے لیے نقصان کے بغیر صرف نفع مختص کردیا گيا اور نقصان صرف دوسرے فریق پر ڈالا گیا ہے، جو کہ درست نہیں ہے۔
اس حوالے سے مشہور شرعی اصول ہے:
“الخراج بالضمان”. [سنن أبی داؤد: 3508]
آمدنی (نفع) کا حق دار وہی ہے، جو نقصان کا ضامن ہو۔
اس لیے کاروبار میں شراکت کی یہ والی صورت جائز نہیں ہے، جس میں ایک فریق صرف منافع حاصل کرے، نقصان میں شریک نہ ہو۔
ہاں اس کی جائز صورت یہ ہو سکتی ہے کہ اس معاملے کو مشترکہ کاروبار اور سرمایہ کاری کی بجائے اجارہ (کرائے) کے طور پر لیا جائے ، یعنی ایک شخص نے رکشہ خرید کر دوسرے کو کرائے پر دے دیا ہے اور ان کے درمیان باہمی رضامندی سے کرایہ طے ہو گیا ہے۔ اب چاہے وہ کرایہ دس ہزار ہو یا پندرہ ہزار، یہ فریقین کی مرضی پر منحصر ہے۔
اسی طرح رکشہ چلانے والے کو فائدہ ہو یا نقصان، رکشہ مالک نے تو اپنی چیز کا کرایہ لینا ہے، جیسے کوئی شخص کسی کو دکان کرائے پر دے دیتا ہے، یا کسی کو زمین ٹھیکے پر دے دیتا ہے۔ اب کرایہ دار وہاں کچھ کرے یا نہ کرے، اس کو نقصان ہو یا نفع، اس سے مالک کو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس نے تو بس اپنی چیز کا فکس کرایہ لینا ہے۔
لہٰذا مذکورہ عقد ناجائز یا سودی نہیں کہلائے گا، بلکہ بصورتِ اجارہ ایک درست اور جائز معاہدہ ہے۔
وآخر دعوانا أن الحمد لله رب العالمين
مفتیانِ کرام
فضیلۃ الشیخ ابو محمد عبد الستار حماد حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ ابو عدنان محمد منیر قمر حفظہ اللہ
فضیلۃ الشیخ جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ