سوال (5400)

خاوند بیوی ہیں ان کی ایک بیٹی جو کہ جوان ہے، اس کی والدہ کہتی ہے کہ میں اپنی بیٹی کا رشتہ اپنے رشتہ داروں میں کروں گی جبکہ کہ لڑکی کا والد کہتا ہے کہ میں اپنی بیٹی کا رشتہ اپنی مرضی سے کروں گا اور بیٹی کا رجحان والدہ کی طرف ہے، خاوند نے بیٹی اور بیوی کو کہا ہے کہ تم دونوں ادھر ہی چلی جاؤ یعنی اپنے رشتہ داروں کی طرف جب کہ اس کی نیت طلاق کی نہیں تھی اور وہ ماں بیٹی اپنے رشتہ داروں کی طرف چلی گئی ہیں کیا اب باپ کی مرضی کے بغیر نکاح درست ہوگا یا نہیں راہنمائی فرمائیں؟

جواب

ایسے معاملات میں ضد اور ہٹ دھرمی کا رویہ درست نہیں ہوتا۔ نکاح کی چار بنیادی شرائط میں سے سب سے پہلی شرط لڑکی اور لڑکے کی مکمل رضامندی ہے۔ اگر لڑکی راضی نہیں ہے تو والد زبردستی اس کا نکاح نہیں کر سکتا۔ البتہ اس کے باوجود والد کو چھوڑ کر رشتہ داروں کے ہاں چلے جانا بھی مناسب عمل نہیں ہے۔
سوال یہ ہے کہ والد کب تک اپنی ضد پر قائم رہیں گے؟ میں مرد کی فطرت کو اچھی طرح جانتا ہوں، یہ ممکن نہیں کہ پورا خاندان ایک طرف ہو اور والد اکیلے دوسری طرف زیادہ دیر تک اڑے رہیں۔ اُنہیں واپس آ جانا چاہیے اور رشتہ داروں، قریبی عزیزوں کو بیچ میں ڈال کر اُس شخص (یعنی والد) کو قائل کرنا چاہیے۔
اور یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ ولی کے بغیر نکاح نہیں ہوتا، اور ولی والد ہی بنتا ہے۔ والد کی موجودگی میں عام حالات میں کسی اور کو ولی بنانے کی اجازت نہیں ہوتی۔

فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ

سائل: شیخ محترم لڑکی کی رضا مندی ہے جبکہ والد اپنی ذاتی انا کی وجہ سے اس کا رشتہ نہیں کر رہا تو کیا اس صورۃ میں بھی باپ کی ولایت ضروری ہے؟
جواب: ولی کے بغیر لڑکی کا نکاح نہیں ہو سکتا۔ یہی تو میں نے اوپر عرض کیا ہے کہ زد کب تک؟ بالآخر بچوں کے سامنے والدین کو ہارنا پڑتا ہے۔ انتظار کریں، اللہ تعالیٰ سے دعا کریں، اور معاشرتی طور پر اس آدمی کو سمجھانے کی کوشش کریں۔

فضیلۃ الشیخ عبد الرزاق زاہد حفظہ اللہ