سوال (1365)

میں مدینہ منورہ میں رہتا ہوں ، میرے ایک رشتہ دار نے (جوکہ /پاکستان میں رہتا تھا) مجھ سے 8 لاکھ رپے کا قرضہ مانگا ، جو أس وقت 30000 ريال كے عوض بنے تھے(کرنسی کے حساب سے) اور اب دس سال کے بعد وہ شخص بھی مدینہ منورہ آ چکا ہے اور اس نے مجھ سے قرضے کے بارے میں پوچھا تو میں نے بتایا کہ میں نے 30000 ريال بھیجے تھے
تو اس نے ادا کر تو دیے ، لیکن دینے کے بعد مجھے بولا کہ آپ نے مجھ سے سود لیا ہے ،
کیونکہ اب 8 لاکھ عوض میں 11000 ريال ہوتا ہے ۔ ( نئی کرنسی کے حساب سے) حالانکہ میں نے صرف وہی پیسے وصول کیے ہیں جو کہ میں نے دیے تھے ۔ برائے مہربانی ہمیں شریعت کے مطابق بتائیں ۔

جواب

اس نے آپ سے جو کرنسی بطور قرض لی تھی، اتنی ہی واپس کرنی ہے، اگر آپ نے تیس ہزار ریال قرض دیا تھا، تو لینا بھی تیس ہزار ریال ہی ہے۔ اس میں سود والی کوئی بات نہیں ہے۔
ہاں لیکن اگر اس نے آپ سے قرض پاکستانی کرنسی میں طلب کیا تھا جیسا کہ سوال میں لکھا ہوا ہے کہ اس نے ’8 لاکھ’ قرض مانگا تھا تو لیں گے بھی پاکستانی کرنسی میں ہی یعنی آٹھ لاکھ، ریال میں وہ جتنے بھی بنتے ہوں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر اس بنیاد پر آپ اس سے زیادہ لیں تو یہ سود ہوگا۔
اور اگر آپ لوگوں کا آپس میں طے نہیں تھا کہ آپ ریال میں ڈیل کر رہے ہیں یا پاکستانی روپے میں، تو یہ وہ غفلت اور سستی ہے، جو معاملات اور لین دین میں نہیں ہونی چاہیے، آپ لوگوں کو چاہیے تھا کہ اسی وقت یہ چیزیں طے کر لیتے! شریعت میں اسی وجہ سے قرض وغیرہ لین دین کے معاملات کو تحریر کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اگر آپ لوگوں نے اس حکم پر عمل کیا ہوتا تو یقینا اس میں یہ موجود ہوتا کہ آپ لوگوں کے معاملات کس کرنسی کے حساب سے ہو رہے ہیں!

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ