سوال (5637)
رو رو کر ذاکرین شہادت حسین کو بیان کرتے ہیں، اسی طرح سانحہ وفات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہمارے اہل حدیث خطباء بیان کرتے ہیں اگرچہ روایات ساری مقبول درجے کی ہوں بیان کرنے کا حکم کیا ہے؟
جواب
یقینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دنیا میں تشریف لانا اور منصب نبوت پر فائز ہوکر انسانیت کی راہ نمائی کرنا جہاں اولاد آدم کے لیے ایک سعادت اور خوشی کی بات تھی وہاں یہ بھی حقیقت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دنیا سے چلے جانا اللہ تعالیٰ کے قانون قدرت کا تقاضا تو تھا ہی لیکن امت کے لیے ایک بہت بڑا صدمہ تھا۔ عقیدے کی اصلاح کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا تذکرہ کرنا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زندہ تسلیم کرنے کے عقیدے کی نفی کی حد تک آپ کی وفات کا مدلل ذکر ضرور کرنا چاہیے کیونکہ اس میں عقیدے کی اصلاح ہے، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کو بہت زیادہ شدومد کے ساتھ اور للکار للکار کر ،،،جیسا کہ ہمارے بعض خطباء کا انداز ہے۔ بیان کرنے سے گریز کرنا چاہیے، اس سے جہلاء اپنے عوام کو مسلک اہل حدیث کے متعلق یہ باور کروانے میں کسی حد تک کامیاب ہوجاتے ہیں کہ ہم نبی کی آمد اور خوشی اور شان کا تذکرہ کر رہے ہیں جبکہ یہ لوگ نبی کو (نعوذباللہ) مرا ہوا کہتے ہیں، جو کہ گستاخی ہے۔ ایسی باتیں عوام الناس کے ذہنوں میں بہت جلد اثر کرتی ہیں۔ اس لیے ہمیں تمام پہلوؤں کو سامنے رکھنا چاہیے، تاکہ عقیدہ بھی بیان ہوجائے اور نفرت کا ماحول بھی جنم نہ لے۔ حق بیان ضرور کرنا چاہیے لیکن وجادلهم بالتی هی احسن، کے پیش نظر، حکمت عملی کے ساتھ حق بیان کیا جائے تو مزید موثر و مفید ثابت ہوتا ہے،
واللہ تعالی اعلم بالصواب۔
فضیلۃ العالم امان اللہ عاصم حفظہ اللہ