سوال (3910)
عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:” مَا مِنْ عَبْدٍ أَصْبَحَ صَائِمًا إِلَّا فُتِحَتْ لَهُ أَبْوَابُ السَّمَاءِ، وَسَبَحَتْ أَعْضَاؤُهُ وَاسْتَغْفَرَ لَهُ أَهْلُ السَّمَاءِ الدُّنْيَا إِلَى أَنْ تُوَارَى بِالْحِجَابِ، فَإِنْ صَلَّى رَكْعَةً أَوْ رَكْعَتَيْنِ أَضَاءَتْ لَهُ السَّمَوَاتُ نُوْرًا، وَقُلْنَ أَزْوَاجُهُ مِنَ الْحُوْرِ الْعِينِ: اللَّهُمَّ اقْبِضْهُ إِلَيْنَا فَقَدِ اشْتَقْنَا إِلَى رُؤْيَتِهِ، وَإِنْ هَلَلَ وَسَبَّحَ وكَبَرَ تَلَقَّاهُ سَبْعُوْنَ أَلْفَ مَلَكِ يَكْتُبُوْنَ ثَوَابَهَا إِلَى أَنْ تُوَارَى بِالْحِجَابِ. [شعب الايمان للبيهقي : 3319، الصيام، فضائل الصوم]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ: جو شخص روزہ رکھتا ہے اس کے لیے آسمان کے دروازے کھل جاتے ہیں اور اس شخص کے اعضاء اللہ تعالیٰ کی تسبیح کرتے ہیں اور پہلے آسمان والے سورج غروب ہونے تک اس کے لیے استغفار کرتے رہتے ہیں، پھر اگر وہ ایک یا دو رکعتیں پڑھتا ہے تو تمام آسمان اس کے لیے نور سے روشن ہو جاتے ہیں اور حور عین جو اس کی جنت کی بیویاں ہیں وہ کہتی ہیں کہ اے اللہ آپ اسے ہمارے پاس بلا لیں کہ ہم اس سے ملاقات کی مشتاق ہیں۔ اور اگر لَا إِلَهَ إِلَّا الله يا سُبْحَانَ اللهُ” یا “الله اکبر “ کہتا ہے تو ستر ہزار فرشتے اس کا ثواب لکھنا شروع کر دیتے ہیں اور غروب آفتاب تک لکھتے ہی رہتے ہیں۔
کیا یہ روایت صحیح ہے؟
جواب
یہ روایت المعجم الأوسط للطبراني: (7749)، المعجم الصغير للطبراني: (840)، شعب الإيمان للبيهقي: (3319 ،3320)، الكامل لابن عدي:2/ 342
اس روایت کے بعد اس روایت کے ضعف کو امام طبرانی یوں بیان کرتے ہیں:
ﻟﻢ ﻳﺮﻭ ﻫﺬا اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻋﻦ ﺃﺑﻲ ﺇﺳﺤﺎﻕ ﺇﻻ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ ﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻟﻴﻠﻰ، ﻭﻻ ﺭﻭاﻩ ﻋﻦ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﺮﺣﻤﻦ ﺇﻻ ﺟﺮﻳﺮ ﺑﻦ ﺃﻳﻮﺏ، ﻭﻻ ﺭﻭاﻩ ﻋﻦ ﺟﺮﻳﺮ ﺇﻻ ﺃﺑﻮ ﻋﺘﺎﺏ، ﺗﻔﺮﺩ ﺑﻪ: ﺯﻳﺎﺩ ﺑﻦ ﻳﺤﻴﻰ
اس روایت کی سند میں مرکزی وجہ ضعف جریر بن أیوب راوی ہے.
امام بخاری نے کہا:
ﻣﻨﻜﺮ اﻟﺤﺪﻳﺚ، التاريخ الكبير للبخارى :2/ 215
الضعفاء الصغير:(51)
امام نسائی نے کہا:
ﻣﺘﺮﻭﻙ اﻟﺤﺪﻳﺚ، الضعفاء والمتروكون :(102)
امام یحیی بن معین نے کہا:
ﻟﻴﺲ ﺑﺸﺊ، الجرح والتعديل :2/ 503
ﻫﻮ ﻣﻨﻜﺮ اﻟﺤﺪﻳﺚ ﻭﻫﻮ ﺿﻌﻴﻒ اﻟﺤﺪﻳﺚ۔۔۔ ﻳﻜﺘﺐ ﺣﺪﻳﺜﻪ ﻭﻻ ﻳﺤﺘﺞ ﺑﻪ،الجرح والتعديل :2/ 504
امام أبو زرعہ الرازی نے کہا:
ﻣﻨﻜﺮ اﻟﺤﺪﻳﺚ، الجرح والتعديل :2/ 504
اس پر مزید جروح کے لئے کتب تراجم کو دیکھیے
اور محمد بن عبدالرحمن بن أبی لیلی ضعيف سیئ الحفظ راوی ہے.
امام شعبہ نے کہا:
ﻣﺎ ﺭﺃﻳﺖ ﺃﺣﺪا ﺃﺳﻮﺃ ﺣﻔﻈﺎ ﻣﻦ اﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻟﻴﻠﻰ” الجرح والتعديل :1/ 152
امام ابن حبان نے کہا:
ﻛﺎﻥ ﺭﺩﻱء اﻟﺤﻔﻆ ﻛﺜﻴﺮ اﻟﻮﻫﻢ ﻓﺎﺣﺶ اﻟﺨﻄﺄ ﻳﺮﻭﻱ اﻟﺸﻲء ﻋﻠﻰ اﻟﺘﻮﻫﻢ ﻭﻳﺤﺪﺙ ﻋﻠﻰ اﻟﺤﺴﺒﺎﻥ ﻓﻜﺜﺮ اﻟﻤﻨﺎﻛﻴﺮ ﻓﻲ ﺭﻭاﻳﺘﻪ ﻓﺎﺳﺘﺤﻖ اﻟﺘﺮﻙ ﺗﺮﻛﻪ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ حنبل ﻭﻳﺤﻴﻰ ﺑﻦ ﻣﻌﻴﻦ, المجروحين لابن حبان: 2/ 244
حافظ ذہبی نے اس روایت کے بارے میں کہا:
ﻫﺬا ﻣﻮﺿﻮﻉ ﻋﻠﻰ اﺑﻦ ﺃﺑﻲ ﻟﻴﻠﻰ، میزان الاعتدال :1/ 392
اس راوی پر تفصیل کتب تراجم میں دیکھ سکتے ہیں.
تو یوں یہ روایت ضعیف ومنکر ہے
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ