سوال (3841)

روزوں کی قضائی آئندہ رمضان سے قبل ادا کرنا لازم ہے؟ اگر ہے تو جان بوجھ کر تاخیر کرنے والا گناہگار ہوگا؟ اور دوسرا کیا بعد میں اس کے ساتھ ہر روزے کی قضائی کے ساتھ فدیہ بھی لازم ہوگا ؟

جواب

روزوں کی قضائی آئندہ رمضان المبارک سے پہلے پہلے کرنا واجب ہے۔ جان بوجھ کر تاخیر کرنے والے پر اس کا گناہ ہے۔ اور اس بلا وجہ تاخیر سے یہ قضائی ساقط نہیں ہو گی۔
رہی آخری بات کہ قضاء کے ساتھ ساتھ فدیہ بھی دینا لازم ہے تو اس بارے علماء کا اختلاف ہے۔ ابن عباس وابن عمر وأبي هريرة رضي الله عنهم کے بارے میں آتا ہے کہ وہ فدیہ لازم قرار دیتے تھے:

“عليه القضاء وإطعام مسكين لكل يوم”.

لیکن امام البخاری رحمہ اللہ تعالیٰ نے اپنی صحیح میں ابراہیم النخعی کے توسط سے ذکر کیا ہے کہ یہ ضروری نہیں ہے۔ یہی بات راجح معلوم ہوتی ہے۔ اس لیے یہ حکم بھی شرعی ہے اور دلیل کا محتاج ہے۔ اسی لیے شیخ العثیمین رحمہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

“وأما أقوال الصحابة فإن في حجتها نظراً إذا خالفت ظاهر القرآن، وهنا إيجاب الإطعام مخالف لظاهر القرآن، لأن الله تعالى لم يوجب إلا عدة من أيام أخر، ولم يوجب أكثر من ذلك، وعليه فلا نلزم عباد الله بما لم يلزمهم الله به إلا بدليل تبرأ به الذمة، على أن ما روي عن ابن عباس وأبي هريرة رضي الله عنهم يمكن أن يحمل على سبيل الاستحباب لا على سبيل الوجوب، فالصحيح في هذه المسألة أنه لا يلزمه أكثر من الصيام إلا أنه يأثم بالتأخير.” أ.هـ. الشرح الممتع (6/451).

والله تعالى أعلى وأعلم والرد إليه أفضل وأسلم.

فضیلۃ الباحث ابو دحیم محمد رضوان ناصر حفظہ اللہ

سائل: شیخ لیٹ کرنے پر گناہ اسکی دلیل مطلوب ہے
اور اگر بلا وجہ لیٹ کرنے سے ادائی ساقط نا ہوگی گویا اسکو توبہ کرنا ہوگی؟
جواب: حديث عائشة رضي الله عنها

عن عائشة رضي الله عنها قالت: كان يكون علي الصوم من رمضان، فما أستطيع أن أقضي إلا في شعبان.

فضیلۃ الباحث ابو دحیم محمد رضوان ناصر حفظہ اللہ