سوال (5225)
فقہ اسلامی میں رخصت (چھوٹ) اس حکم کو کہتے ہیں جو کسی عذر یا مجبوری کی صورت میں دیا جاتا ہے، تاکہ دین آسانی کا باعث بنے، نہ کہ تنگی کا۔
رخصت کی درج ذیل اہم اقسام ہیں:
1: رخصت عزیمت کے مقابل:
– عزیمت: اصل اور عام حالت میں دیا گیا حکم (مثلاً روزہ فرض ہے)
– رخصت: عذر کی حالت میں آسانی (مثلاً سفر میں روزہ نہ رکھنا)
2. رخصتِ سفر:
– سفر کی حالت میں
– روزہ چھوڑنے کی اجازت
– نماز قصر پڑھنا (یعنی چار رکعت والی نماز دو پڑھنا)
3. رخصتِ مرض:
– بیماری کی حالت میں
– روزہ ترک کر کے بعد میں قضا کرنا
– تیمم کی اجازت اگر پانی نقصان دہ ہو
4. رخصتِ اکراہ (زبردستی)
– اگر کسی کو جان یا مال کے نقصان کا خوف ہو تو وہ کفر کے الفاظ زبان سے کہہ سکتا ہے، دل میں ایمان قائم رکھ کر۔
5. رخصتِ تقیہ
– جب ایمان چھپانا جان بچانے کے لیے ضروری ہو (مثلاً دشمن کے خوف سے)
6. رخصتِ جبر و اضطرار
– مجبوری میں حرام چیز استعمال کرنے کی اجازت (مثلاً جان بچانے کے لیے مردار کھانا)
خلاصہ: رخصت دین کی رحمت اور سہولت ہے، جو انسان کی کمزوری کو مدنظر رکھتے ہوئے ہیں آسانی پیدا کرتی ہے، بشرطیکہ اس کا ناجائز فائدہ نہ اٹھایا جائے۔
کیا یہ درست ہے؟
جواب
کوئی حرج نہیں ہے، اچھی گھری نظر سے مطالعہ کرکے استنباط کیا ہے، سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے تھے کہ میرے پاس وہ فہم ہے، جو اللہ تعالیٰ مومن کو دیتا ہے، بس یہ ایک فہم ہے، اچھی بات ہے۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ
سائل: لیکن شیخ محترم ایمان کا انکار کیا کرنا چاہیے جب جان بچانی ہو کیونکہ صحابہ کرام نے تو کلمہ نہیں چھوڑا نہ ایمان کا انکار کیا بہت سارے تکلیفوں کا سامنا کیا اپنی جانیں گنوادی۔ اس کے متعلق رہنمائی فرمادیں؟
جواب: ہو سکتا ہے کہ الفاظ کی وجہ سے ابہام پیدا ہو رہا ہو، لیکن یہ تعبیر صحیح ہے، لیکن جو انسان عزیمت کا راستہ اختیار نہیں کر سکتا، عزیمت یہ ہے کہ انسان سر اٹھا کر ایمان کا اظہار کرے، اللہ تعالیٰ کے جان گوا دیں، جیسا کہ وہ بندہ جس نے مکھی نہیں چاڑھی تھی، مجاوروں نے ان کو مار دیا تھا، جس نے مکھی چڑھا دی وہ جہنم میں داخل ہوگیا تھا، لیکن سیدنا عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کو کلمہ کفر پر مجبور کیا تھا تو قرآن مجید کی آیت آگئی تھی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
“مَنۡ كَفَرَ بِاللّٰهِ مِنۡۢ بَعۡدِ اِيۡمَانِهٖۤ اِلَّا مَنۡ اُكۡرِهَ وَقَلۡبُهٗ مُطۡمَئِنٌّۢ بِالۡاِيۡمَانِ وَلٰـكِنۡ مَّنۡ شَرَحَ بِالۡكُفۡرِ صَدۡرًا فَعَلَيۡهِمۡ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰهِۚ وَلَهُمۡ عَذَابٌ عَظِيۡمٌ” [النحل: 106]
جو شخص اللہ کے ساتھ کفر کرے اپنے ایمان کے بعد، سوائے اس کے جسے مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان پر مطمئن ہو اور لیکن جو کفر کے لیے سینہ کھول دے تو ان لوگوں پر اللہ کا بڑا غضب ہے اور ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہے۔
یہ اسی ضمن میں ہے، عزیمت یہ ہے کہ آپ کلمہ کفر نہ کہیں، رخصت یہ ہے کہ اگر آپ عزیمت پر عمل نہیں کرتے، تو آپ کا دل ایمان سے مطمئن ہے، تو آپ کلمہ کفر کہہ سکتے ہیں۔
فضیلۃ الشیخ عبد الوکیل ناصر حفظہ اللہ