رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر نہایت رعب دار آواز میں خطاب کرتے، سنجیدگی اور متانت آپ کے چہرے سے عیاں ہوتی۔ مگر جب صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے درمیان ہوتے، مدینہ منورہ کی گلیوں میں چلتے پھرتے تو ہنسی مزاح بھی کرتے اور ہنستے مسکراتے اور پھول جیسے بچوں سے لاڈ پیار کرتے۔ حتی کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دس سال خدمت کی۔ آپ نے مجھے کبھی اف نہیں کہا۔ نہ کبھی یہ کہا کہ یہ کام کیوں کیا؟ اور یہ کام کیوں نہیں کیا؟
اور دوسری طرف ہمارا رویہ کہ منبرِ رسول پر کھڑے ہوکر ہنسی مذاق کر رہے ہوتے ہیں۔ لطیفے سناتے ہیں۔ گالیاں نکالتے ہیں۔ جگت بازی کرتے ہیں۔ بِنا علم کے منبر رسول پر براجمان ہوجاتے ہیں۔ کوئی چھ ماہ پڑھ کر بھاگا ہوا ہے، کوئی ایک سال، کوئی دو سال،کوئی پانچ سال، کسی کو ویسے اداروں سے نکالا ہوا ہے۔
کسی کو “ثَمّ خیرا ” کی بیماری ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ مجھے بولنا آگیا ہے یہی کافی ہے۔ کوئی کہتا ہے میں زیادہ کام کر رہا ہوں، میرے چینل اور پیج کے لاکھوں فالورز ہیں، مجھے عوام زیادہ پسند کرتی ہے۔
مگر جب اپنے معاشرے اور فیملی ماحول میں ہوتے ہیں تو سخت مزاج، بد زبان، بے عمل اور ڈانٹ ڈپٹ کے دلدادہ ہوتے ہیں۔ جن سے اپنی اولاد، والدین، رشتہ دار، ہمسائے بھی تنگ ہوتے ہیں۔
حالانکہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ اچھا ہونے کی دلیل مانگنی ہوتو اپنے ہمسائے سے پوچھ لو۔ اگر وہ کہے تو اچھا ہے تو تُو اچھا ہے اور اگر ہمسایہ کہے کہ تُو برا ہے تو تُو برا ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اسٹیج پر بھی نبوی طریقہ اپنانے کی توفیق دے اور معاشرے میں رہن سہن میں نبوی طریقہ اپنانے کی توفیق دے۔

شفیق الرحمٰن مفلح