آپ کی شادی ، بیٹیوں کی تعداد ، اور شادی کی عمر بارے بعض غلط فہمیاں ۔۔۔
رسول مکرم و معظم کے معاملات اور معمولاتِ زندگی نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اس درجہ متاثر کیا کہ ان کی بہن نے آپ کو ان کے ساتھ نکاح بارے پیغام بھجوایا۔۔۔
سیدنا عمار بن یاسر کہتے ہیں کہ :
” میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہم عمر اور دوست تھا ایک روز رسولِ مکرم کے ہم راہ تھا کہ حضور میں حضور کے مقام پر سیدہ خدیجہ کی ہمشیرہ کے پاس سے ہمارا گزر ہوا وہ چمڑا فروخت کر رہی تھیں انہوں نے ہمیں دیکھا تو بلایا ۔ میں اکیلا ہی آگے بڑھا ، تو اس نے کہا کیا تمہارے اس دوست کو خدیجہ کا رشتہ پیش کروں تو پوچھو تو ذرا ”
عمار کہتے ہیں کہ میں نے آپ سے پوچھا تو آپ نے رضامندی کا اظہار کیا، جو میں نے سیدہ کی بہن کو بتا دیا۔۔۔
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں یعلیٰ بن اُمیہ کی بہن نفیسہ بنت امیہ بھی پیغام نکاح لے کر گئیں۔ نفیسہ کا بیان ہے کہ میں آپ کے پاس آئی اور کہا کہ آپ نکاح کیوں نہیں کرلیتے؟
آپ نے فرمایا کہ میں خالی ہاتھ ہوں، کس طرح نکاح کرسکتاہوں؟ میں نے کہا کہ اگر کوئی ایسی عورت آپ سے نکاح کرنے کی خواہش مند ہو جو ظاہری حسن و جمال اور طبعی شرافت کے علاوہ دولت مند بھی ہو تو آپ اس سے نکاح کرلینا پسند کریں گے؟
آپ نے دریافت کیا کہ “ایسی کون خدا کی بندی ہو سکتی ہے؟” میں نے کہا خدیجہ بنت خویلد ۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے چچا ابو طالب سے ذکر کیا، انہوں نے بڑی خوشی کا اظہار کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نفیسہ کو جواب دے دیا کہ :
“اگر وہ اس کے لیے آمادہ ہیں تو میں بھی راضی ہوں۔”
نفیسہ نے آ کر حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کو اس کی اطلاع دی ۔پھر باہمی مشاورت سے طے ہوگیا کہ آپ اپنے خاندان کے بزرگوں کو لے کر فلاں دن ان کے یہاں آجائیں ۔ چنانچہ حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ اور ابوطالب اور خاندان کے دیگر اہم شخصیات آپ رضی اللہ عنہا کے مکان پر آئے۔ اُس وقت حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے والد زندہ نہ تھے وہ پہلے ہی فوت ہو چکے تھے۔اس لیےآپ کے چچا عمرو بن اَسد بطورِ ولی و سرپرست اور خاندان کے دیگر بزرگ شریک تھے ۔
جناب ابی طالب نے آپ کا نکاح پڑھایا اور مکے کی خدیجہ بنت خویلد کا ذکر تا قیام قیامت زندہ ہو گیا ۔ اب آپ ام المومنین ہونے کو تھیں ۔۔۔
یہاں دو امور کی وضاحت ضروری ہے ۔
ایک کمزور روایت کی بنیاد پر بعض لبرل اور ملحدین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بارے طعن کرتے ہیں ۔ جس میں کہا گیا ہے کہ سیدہ خدیجہ کے والد اس نکاح کے لیے راضی نہ تھے ۔ تو حقیقت یہ ہے کہ آپ کے والد اس نکاح سے پہلے وفات پا چکے تھے اس لیے یہ اعتراض ہی لغو ٹہرتا ہے ۔ سیدہ عائشہ اور سیدنا ابنِ عباس سے روایت ہے کہ سیدہ خدیجہ کے والد اس نکاح سے پہلے وفات پا چکے تھے۔
دوسری غلط فہمی یہ ہوئی اور ایسی عام ہو گئی کہ اگر حقیقت اپنی جگہ حقیقت ہونے کے باوجود اجنبی ہو گئی۔ وہ یہ کہ سب ہی یہ سمجھتے ہیں کہ بوقت نکاح سیدہ خدیجہ کی عمر چالیس برس تھی، جبکہ ایسا نہیں ہے بلکہ اس حوالے سے اختلاف ہے اور یہ ہرگز متفق علیہ امر نہیں ۔ اس ضمن میں ایک سے زیادہ روایات ملتی ہیں۔ امام بیہقی رحمہ اللہ کے حوالے سے امام ابنِ کثیر رحمہ اللہ نقل کرتے ہیں کہ یہ سیدہ خدیجہ کی عمر شادی کے وقت پینتیس برس تھی اور بعض روایات میں پچیس برس بھی آتی ہے۔
اس بات کو اس سے بھی تقویت ملتی ہے کہ بقول حافظ ابن کثیر سیدہ خدیجہ پینسٹھ برس کی عمر میں فوت ہوئیں جبکہ بعض کہتے ہیں پچاس برس کی عمر وفات ہوئی ۔
اور بقول امام ابن کثیر صحیح ترین قول یہی ہے کہ بوقت وفات ان کی عمر پچاس برس تھی اور یہ بات ثابت شدہ ہے کہ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں پچیس برس رہی تھیں۔ اور دس نبوی میں آپ کی وفات ہوئی یعنی بعثت کے دس برس بعد ۔۔۔
سو اگر پچاس میں سے پچیس برس منہا کیے جائیں تو بوقت شادی آپ کی عمر پچیس برس بنتی ہے ۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ خدیجہ سے چار بیٹیاں پیدا ہوئی اور دو بیٹے ۔۔ بڑے بیٹے کا نام قاسم تھا اور انہی کے نام پر اپ کو ابو القاسم کہا گیا۔
بعض لوگوں کی طرف سے یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ آپ کی صرف ایک ہی بیٹی تھی جبکہ باقی تین بیٹیاں رقیہ زینب کلثوم تینوں پچھلے خاوندوں سے تھیں
سوال یہ ہے کہ کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کیا ایک ہی بیٹی تھی؟
ایک گروہ کا کہنا ہے کہ نبی کی شادی پچیس برس کی عمر میں ہوئی، پانچ سال بچہ پیدا نہ ہوا پھر بیٹا پیدا ہوا …چالیس برس میں نبوت کا اعلان کیا ۔.اعلان نبوت سے پہلے چار برس اولاد نہ ہوئی…یعنی چھتیس برس کی عمر کے بعد اولاد نہ ہوئی…مولوی تو پھنس گیا ..بتا چھ سال میں چھ بچے …اور ابی لھب کے بیٹوں سے شادی بھی کی کہ جو مشرک تھے ۔ لمبا قصہ جو ناچتے ہاتھوں سے بیان کیا جاتا ہے اور لفظوں کے کھیل میں اچھا خاصا “مسلہ فیثا غورث ” بنا دیا جاتا ہے ۔
جبکہ حقیقت کچھ یوں ہے کہ
نبی کریم کی شادی پچیس برس کی عمر میں ہوئی..جب کہ ۔شیعہ کتب (اصول کافی ) میں یوں بھی آتا ہے کہ بیس برس سے اوپر تھے ..کتنے ؟ ہم کچھ نہیں کہتے ….ممکن ہے اکیس ، بائیس…اس طرح تو یہ عرصہ اٹھارہ بیس برس کو جا پہنچتا ہے…لیجئے اصول کافی نے اعتراض کی جڑ ہی کاٹ دی
لیکن ہم پچیس برس کی ہی بات کرتے ہیں
شادی کے چار برس بعد آپ کے بیٹا پیدا ہوا..اور پھر سیدہ زینب پیدا ہوئیں….یعنی جب آپ کی عمر مبارک تیس برس تھی…ان کی شادی ابوالعاص رض سے ہوئی تھی…
اس کے تیسرے برس دوسری بیٹی رقیہ پیدا ہوئیں….جب نبی کریم کی عمر تنتیس برس ہو چلی تھی۔
اس کے بعد آپ کے تیسری بیٹی ام کلثوم پیدا ہوئی..بعض مورخ اختلاف کرتے ہیں کہ سیدہ ام کلثوم سیدہ رقیہ سے بڑی تھیں…لیکن اکثریت کا خیال ہے کہ چھوٹی تھیں اور یہی راجح موقف ہے
…اب حضرت زینب کے بارے میں تو خطیب خاموش رہا….لیکن چھوٹی بیٹیوں کے حوالے سے یہ کہتا ہے کہ کیسے ممکن تھا کہ نبی اپنی بیٹیوں کو مشرک کے نکاح میں دے دیتے ۔ اس کا مطلب ہے کہ نبی کی بیٹیاں تھیں ہی نہیں ۔ اور مزید یہ کہ چالیس برس میں نبوت ملی، تو اس سے پہلے بھی اگر نکاح کے تھے تو چھ چھ سال کی بچیوں کی شادی کیسے کر دی ۔
بہت خاموشی سے جھوٹ کے پردے میں سچ کو چھپا لیا جاتا ہے ۔ہوا یوں کہ عرب معاشرے میں کم سنی کی شادی عام سی بات تھی ، اور نبی کریم کی دونوں بیٹیوں کا محض انتساب نکاح ہوا تھا رخصتی نہیں ہوئی تھی کہ ابھی رخصتی کی عمر ہی نہ تھی ۔
دوسری بات کہ ابھی بعثت بھی نہ ہوئی تھی حلال و حرام کے معاملات ابھی طے ہی نہ ہوے تھے ، اسلام کی آمد ابھی بہت دور تھی ۔ اور یہی نبی کریم کا خاندان تھا ، اور ابو لھب کا تو تب آپ سے پیار بھی بہت تھا۔ سو اسی محبت کا مظہر یہ دونوں رشتے تھے۔ رہا مشرک سے نکاح کی ممانعت تو پھر مزید بعد کا قصہ ہے ۔ اس پر ہم بعد میں بات کریں گے ۔اسی اثنا میں اعلان نبوت ہو چکا اور ابو لہب اور اس کی بیوی ام جمیل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کھلم کھلا دشمنی کا اعلان کر دیا۔ تب قران کی آیات

“تبت یدا ابی لھب”

نازل ہوئیں اور یوں دو طرفہ اعلان برات و جنگ ہو گیا ۔
ابی لہب نے اپنے بیٹوں کو حکم دیا کہ آپ کی بچیوں کو طلاق دے دیں ۔سو رخصتی سے پہلے ہی طلاق ہو گئی۔ اب ان کی ممکنہ عمر سات سے آٹھ سال ہو سکتی ہے اور چھوٹی بیٹی ام کلثوم کی پانچ برس تو محض نسبت اور انتساب نکاح کے لیے اس عمر پر کیا اعتراض ؟؟؟
لیکن ظاہر یوں کیا جاتا ہے کہ اتنی چھوٹی عمر میں شادی ممکن نہیں سو آپ کی ایسی کوئی بیٹیاں تھی ہی نہیں۔ یہ بات چھپا لی جاتی ہے کہ محض نسبت تھی رخصتی ہوئی ہی نہ تھی۔
اب دوسرا اعتراض کہ مشرک کو بیٹی کیسے دے دی؟ …
جناب جب اسلام آیا ہی نہیں تھا اور جبریل وحی لے کر آئے ہی نہ تھے تو یہ سوال ہی بے کار ہے ، لیکن پھر بھی کہے دیتے ہیں کہ اسلام کی آمد کے بعد بھی ایسے نکاح فورا حرام نہ ہوئے تھے ۔بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ .لیکن جب مشرک سے نکاح کے حرام ہونے کے احکام آ گئے تو نبی کریم نے اپنی بڑی بیٹی زینب اور ابوالعاص میں علیحدگی کروا دی اور ہجرت کے بعد کہیں جا کر وہ مسلمان ہوئے تو سیدہ زینب ان کے پاس واپس گئیں-
اگر اسلام سے قبل اور زمانہ جاہلیت کی باتیں دلیل بنائی جائیں گی تو بہت سے سوال اٹھ کھڑے ہوں گے- آپ ہی ذرا یہ بھی بتا دیجئے کہ سیدہ خدیجہ کا نبی کریم صلی اللہ علیه وسلم سے نکاح کس طریقے سے ہوا تھا ؟ یاد رہے کہ یہ نکاح جبرائیل کے پہلی وحی لانے سے مدتوں پہلے ہو چکا تھا ۔
آخر میں یہ بھی بتاتے چلیں کہ سیدہ فاطمہ کی ولادت اعلان نبوت کے دنوں میں ہوئی تھی… جب نبی کریم کی عمر چالیس برس کے لگ بھگ تھی۔
صلی اللّٰہ علیہ وسلم

ابو بکر قدوسی