سوال (2673)
جس چیز کو اسلام نے حرام یا ناپاک قرار دیا ہے، اس کی خرید و فروخت کے بارے کیا حکم ہے؟ جیسے سانپ ، بچھو کا زہر، یا چھپکلی وغیرہ کی فارمنگ، اس حوالے سے قرآن و حدیث کیا کہتی ہے؟
جواب
حلال وحرام کا اختیار صرف الله سبحانه وتعالى کے پاس ہے۔
اس کی ایک صورت ہے خود اس کی حلت و حرمت کو بیان فرمانا اور دوسری صورت ہے رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے ذریعے اس کی حلت و حرمت کو بیان فرمانا اور
الله سبحانه وتعالى کے علاوہ کسی کو اختیار نہیں ہے کہ وہ یہ فیصلہ دے کہ یہ حرام اور یہ حرام نہیں ہے یہ حلال اور یہ حلال نہیں ہے اور ایسا کہنے والا الله سبحانه وتعالى کے اختیار میں شریک ہو رہا ہے جو صریح گمراہی ہے۔
ارشاد باری تعالی ہے:
وَلَا تَقُولُوا لِمَا تَصِفُ أَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هَٰذَا حَلَالٌ وَهَٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوا عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ ۚ إِنَّ الَّذِينَ يَفْتَرُونَ عَلَى اللَّهِ الْكَذِبَ لَا يُفْلِحُونَ.
اور اس کی وجہ سے جو تمھاری زبانیں جھوٹ کہتی ہیں، مت کہو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے، تاکہ الله پر جھوٹ باندھو۔ بے شک جو لوگ الله پر جھوٹ باندھتے ہیں وہ فلاح نہیں پاتے۔
[سورة النحل: 116]
اس آیت کی تفسیر میں مفسر قرآن شیخ حافظ عبدالسلام بن محمد بھٹوی رحمه الله تعالى لکھتے ہیں:
يعنی جب الله تعالیٰ نے تمھارے لیے حلال و حرام کو خود واضح فرما دیا ہے تو اب اسی کے پابند رہو اور یہ جرأت مت کرو کہ تمھاری زبانیں جسے جھوٹ سے حلال کہہ دیں اسے حلال اور جسے حرام کہہ دیں اسے حرام قرار دے لو، اگر ایسا کرو گے تو یہ الله پر جھوٹ باندھنا ہو گا اور یہ بات یقینی ہے کہ الله تعالیٰ پر جھوٹ گھڑنے والے کبھی کامیاب نہیں ہوتے، اگر اس کے بدلے انھیں دنیا میں کچھ فائدہ حاصل بھی ہو جائے، خواہ پوری دنیا مل جائے، وہ بہت ہی تھوڑا سامان ہے، کیونکہ یہ سامان ہر حال میں ختم ہو جانے والا ہے، پھر ان کا ہمیشہ کا ٹھکانا جہنم ہے۔ مشرکین کے اپنے پاس سے حلال و حرام بنانے کی مثالوں کے لیے دیکھیے سورۂ مائدہ (۱۰۳، ۱۰۴)، انعام (۱۳۸ تا ۱۴۰) اور سورۂ یونس (۵۹، ۶۰)۔
حافظ ابن کثیر رحمہ الله نے فرمایا، اس آیت میں ہر وہ شخص داخل ہے جو دین میں کوئی نئی بات (بدعت) ایجاد کرے، جس کی کوئی شرعی دلیل نہ ہو، یا محض اپنی عقل اور رائے سے الله کی حلال کردہ چیز کے حرام یا حرام کردہ چیز کے حلال ہونے کا فتویٰ دے۔ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے اس فرمان کے صحیح ہونے پر تو ساری امت کا اتفاق ہے:
(( مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ ))
‘‘ [بخاری، العلم، باب إثم من کذب علی النبي صلی الله علیہ وسلم : ۱۰۷۔ مسلم، المقدمة : ۳ ] ’’جس نے مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ بولا وہ اپنا ٹھکانا جہنم میں بنا لے (کیونکہ یہ درحقیقت الله پر جھوٹ ہے)۔
[تفسیر القرآن الکریم ،تفسیر سورۃ النحل : 116]
اب آتے ہیں سانپ، بچھو کی تجارت کرنے کی شرعی حیثیت کی طرف تو یاد رکھیں رب العالمین نے حلال اور حرام کو واضح طور پر بیان فرما دیا ہے۔
ملاحظہ فرمائیں:
عن اﻟﻨﻌﻤﺎﻥ ﺑﻦ ﺑﺸﻴﺮ، ﻳﻘﻮﻝ: ﺳﻤﻌﺖ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻳﻘﻮﻝ: اﻟﺤﻼﻝ ﺑﻴﻦ، ﻭاﻟﺤﺮاﻡ ﺑﻴﻦ، ﻭبينهما ﻣﺸﺒﻬﺎﺕ ﻻ ﻳﻌﻠﻤﻬﺎ ﻛﺜﻴﺮ ﻣﻦ اﻟﻨﺎﺱ، ﻓﻤﻦ اﺗﻘﻰ اﻟﻤﺸﺒﻬﺎﺕ اﺳﺘﺒﺮﺃ ﻟﺪﻳﻨﻪ ﻭﻋﺮﺿﻪ، ﻭﻣﻦ ﻭﻗﻊ ﻓﻲ اﻟﺸﺒﻬﺎﺕ: ﻛﺮاﻉ ﻳﺮﻋﻰ ﺣﻮﻝ اﻟﺤﻤﻰ، ﻳﻮﺷﻚ ﺃﻥ ﻳﻮاﻗﻌﻪ، ﺃﻻ ﻭﺇﻥ ﻟﻜﻞ ﻣﻠﻚ ﺣﻤﻰ، ﺃﻻ ﺇﻥ ﺣﻤﻰ اﻟﻠﻪ ﻓﻲ ﺃﺭﺿﻪ ﻣﺤﺎﺭﻣﻪ [صحیح البخاری : 52 ،2051 ، صحیح مسلم : 1599]
اور جو چیزیں انسانی صحت کے لیے مضر تھیں یا ہلاکت کا سبب انہیں بھی مارنے کا حکم دیا
جیسے رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے۔
خَمْسٌ مِنْ الدَّوَابِّ كُلُّهُنَّ فَاسِقٌ يَقْتُلُهُنَّ فِي الْحَرَمِ الْغُرَابُ وَالْحِدَأَةُ وَالْعَقْرَبُ وَالْفَأْرَةُ وَالْكَلْبُ الْعَقُورُ
پانچ جانور ایسے ہیں جو سب کے سب موذی وفاسق ہیں اور انہیں حرم میں بھی مارا جاسکتا ہے کوا، چیل، بچھو، چوہا اور کاٹنے والا کتا۔
[صحیح البخاری : 1829]
سائل نے جب عرب مفتیان سے سوال کیا
ما حكم أكل الحشرات والقوارض
تو اس کا جواب جو دیا گیا وہ پیش خدمت ہے۔
قال النووي:
في مذاهب العلماء في حشرات الأرض كالحيات والعقارب والجعلان وبنات وردان والفأرة ونحوها:
مذهبنا أنها حرام ، وبه قال أبو حنيفة وأحمد وداود …
واحتج الشافعي والأصحاب بقوله تعالى : ويحرم عليهم الخبائث وهذا مما يستخبثه العرب وبقوله صلى الله عليه وسلم : ” خمس من الدواب كلهن فاسق، يقتلن في الحرم : الغراب والحدأة والعقرب والفأرة والكلب العقور ” رواه البخاري ومسلم من رواية عائشة وحفصة وابن عمر ، وعن أم شريك أن النبي صلى الله عليه وسلم ” أمر بقتل الأوزاغ ” رواه البخاري ومسلم ، وأما قوله تعالى : قل لا أجد فيما أوحي إلي محرما الآية ، فقال الشافعي وغيره من العلماء : معناها مما كنتم تأكلون وتستطيبون ، قال الشافعي : وهذا أولى معاني الآية استدلالا بالسنة والله أعلم
[بحوالہ الإسلام سؤال وجواب السؤال : 21901]
امام ابن المنذر
ﺑﺎﺏ ﻣﺎ ﻳﺤﺮﻡ ﺃﻛﻠﻪ ﻣﻦ اﻟﺪﻭاﺏ ﺑﺴﻨﺔ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ کے تحت لکھتے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔ﻭﻻ ﻳﺠﻮﺯ ﺃﻛﻞ اﻟﻔﺄﺭ ﻭاﻟﻌﻘﺎﺭﺏ ﻭاﻟﻐﺮﺑﺎﻥ ﻭاﻟﺤﺪﺃ ﻭاﻟﻜﻼﺏ
ﻷﻥ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﻟﻤﺎ ﺃﺑﺎﺡ ﻟﻠﻤﺤﺮﻡ ﻗﺘﻞ ﺧﻤﺲ ﻣﻦ اﻟﺪﻭاﺏ ﺩﻝ ﺑﺈﺑﺎﺣﺘﻪ ﻟﻠﻤﺤﺮﻡ ﺃﻥ ﻳﻘﺘﻠﻪ ﻋﻠﻰ ﺗﺤﺮﻳﻢ ﺃﻛﻞ ﻟﺤﻮﻣﻪ ﻗﺒﻞ اﻹﺣﺮاﻡ، ﻷﻥ ﻣﺎ ﻛﺎﻥ ﺻﻴﺪا ﻣﺒﺎﺡ ﺃﻛﻠﻪ ﻭﺻﻴﺪﻩ ﻟﻠﺤﻼﻝ ﻓﻬﻮ ﺣﺮاﻡ ﻋﻠﻰ اﻟﻤﺤﺮﻡ ﺻﻴﺪﻩ ﻭﺃﻛﻠﻪ، ﻭﻣﺎ ﻛﺎﻥ ﺧﺎﺭﺟﺎ ﻋﻦ ﺃﺑﻮاﺏ اﻟﺼﻴﺪ اﻟﻤﺤﺮﻡ ﻋﻠﻰ اﻟﻤﺤﺮﻡ ﻗﺘﻠﻪ ﻓﻠﻴﺲ ﻣﻦ اﻟﺼﻴﺪ اﻟﺬﻱ ﻳﺠﻮﺯ ﻟﻠﺤﻼﻝ اﺻﻄﻴﺎﺩﻩ ﻭﺃﻛﻠﻪ۔۔۔۔۔
[الإقناع لابن المنذر : 2/ 615،616 ،617]
امام شافعی نے کہا:
ﻓﻠﻤﺎ ﺃﻣﺮ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ – ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ – اﻟﻤﺤﺮﻡ ﺑﻘﺘﻞ اﻟﻐﺮاﺏ ﻭاﻟﺤﺪﺃﺓ ﻭاﻟﻌﻘﺮﺏ ﻭاﻟﻔﺄﺭﺓ ﻭاﻟﻜﻠﺐ اﻟﻌﻘﻮﺭ ﻭﻗﺘﻞ اﻟﺤﻴﺎﺕ، ﺩﻝ ﺫﻟﻚ ﻋﻠﻰ ﺃﻥ ﻟﺤﻮﻡ ﻫﺬﻩ ﻣﺤﺮﻣﺔ، ﻷﻧﻪ ﻟﻮ ﻛﺎﻥ ﺩاﺧﻼ ﻓﻲ ﺟﻤﻠﺔ ﻣﺎ ﺣﺮﻡ اﻟﻠﻪ ﻗﺘﻠﻪ ﻣﻦ اﻟﺼﻴﺪ ﻓﻲ اﻹﺣﺮاﻡ، ﻟﻢ ﻳﺤﻞ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ – ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ – ﻗﺘﻠﻪ، ﻭﺩﻝ ﻋﻠﻰ ﻣﻌﻨﻰ ﺁﺧﺮ، ﺃﻥ اﻟﻌﺮﺏ ﻛﺎﻧﺖ ﻻ ﺗﺄﻛﻞ ﻣﻤﺎ ﺃﺑﺎﺡ ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ – ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ – ﻗﺘﻠﻪ ﻓﻲ اﻹﺣﺮاﻡ ﺷﻴﺌﺎ (ﻗﺎﻝ) : ﻓﻜﻞ ﻣﺎ ﺳﺌﻠﺖ ﻋﻨﻪ، ﻣﻤﺎ ﻟﻴﺲ ﻓﻴﻪ ﻧﺺ ﺗﺤﺮﻳﻢ ﻭﻻ ﺗﺤﻠﻴﻞ ﻣﻦ ﺫﻭاﺕ اﻷﺭﻭاﺡ ﻓﺎﻧﻈﺮ ﻫﻞ ﻛﺎﻧﺖ اﻟﻌﺮﺏ ﺗﺄﻛﻠﻪ، ﻓﺈﻥ ﻛﺎﻧﺖ ﺗﺄﻛﻠﻪ ﻭﻟﻢ ﻳﻜﻦ ﻓﻴﻪ ﻧﺺ ﺗﺤﺮﻳﻢ، ﻓﺄﺣﻠﻪ، ﻓﺈﻧﻪ ﺩاﺧﻞ ﻓﻲ ﺟﻤﻠﺔ اﻟﺤﻼﻝ ﻭاﻟﻄﻴﺒﺎﺕ ﻋﻨﺪﻫﻢ، ﻷﻧﻬﻢ ﻛﺎﻧﻮا ﻳﺤﻠﻮﻥ ﻣﺎ ﻳﺴﺘﻄﻴﺒﻮﻥ. ﻭﻣﺎ ﻟﻢ ﺗﻜﻦ ﺗﺄﻛﻠﻪ، ﺗﺤﺮﻳﻤﺎ ﻟﻪ ﺑﺎﺳﺘﻘﺬاﺭﻩ ﻓﺤﺮﻣﻪ ﻷﻧﻪ ﺩاﺧﻞ ﻓﻲ ﻣﻌﻨﻰ اﻟﺨﺒﺎﺋﺚ، ﺧﺎﺭﺝ ﻣﻦ ﻣﻌﻨﻰ ﻣﺎ ﺃﺣﻞ ﻟﻬﻢ، ﻣﻤﺎ ﻛﺎﻧﻮا ﻳﺄﻛﻠﻮﻥ، ﻭﺩاﺧﻞ ﻓﻲ ﻣﻌﻨﻰ اﻟﺨﺒﺎﺋﺚ اﻟﺘﻲ ﺣﺮﻣﻮا ﻋﻠﻰ ﺃﻧﻔﺴﻬﻢ. ﻓﺄﺛﺒﺖ ﻋﻠﻴﻬﻢ ﺗﺤﺮﻳﻤﻬﺎ [الأم للشافعي: 2/ 271]
سانپ اور بچھو ایسے موذی اور دشمن ہیں کہ انہیں نماز جیسی عبادت کے اندر بھی مارنے کا حکم ہے
سیدنا ابو ہریرہ رضی الله عنہ بیان کرتے ہیں:
أن ﺭﺳﻮﻝ اﻟﻠﻪ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺃﻣﺮ ﺑﻘﺘﻞ اﻷﺳﻮﺩﻳﻦ ﻓﻲاﻟﺼﻼﺓ: اﻟﺤﻴﺔ، ﻭاﻟﻌﻘﺮﺏ
کہ رسول الله صلى الله عليه وسلم نے نماز میں دو سیاہ چیزوں کو مارنے کا حکم دیا سانپ اور بچھو کو
[مسند أحمد بن حنبل: 10116 سنده صحيح] اس طریق میں یحیی بن أبی کثیر نے سماع کی صراحت کر رکھی ہے، تو انہیں مارنے کی اصل وجہ ان کا موذی ہونا ہے۔
اسی طرح بچھو پر لعنت کی گئی ہے۔
ﻟﻌﻦ اﻟﻠﻪ اﻟﻌﻘﺮﺏ ﻻ ﺗﺪﻉ ﻣﺼﻠﻴﺎ ﻭﻻ ﻏﻴﺮﻩ
[مصنف ابن أبي شيبة : 25099 المعجم الأوسط للطبراني : 5890 ،المعجم الصغير: 830 ،الطب النبوي لأبي نعيم الأصبهاني : 572 سنده حسن لذاته]
امام ابو نعیم الأصبھانی کے شیخ ﻣﺤﻤﺪ ﺑﻦ ﺃﺣﻤﺪ ﺑﻦ اﻟﺤﺴﻦ ﺑﻦ ﺇﺳﺤﺎﻕ ﺑﻦ ﺇﺑﺮاﻫﻴﻢ ﺑﻦ ﻋﺒﺪ اﻟﻠﻪ، ﺃﺑﻮ ﻋﻠﻲ ﺑﻦ اﻟﺼﻮاﻑ ثقة مامونبہیں ان کے بارے امام دارقطنی نے کہا:ﻣﺎ ﺭﺃﺕ ﻋﻴﻨﺎﻱ ﻣﺜﻞ ﺃﺑﻲ ﻋﻠﻲ اﺑﻦ اﻟﺼﻮاﻑ [تاريخ بغداد :2/ 115] اور باقی سند کے رجال ثقہ،صدوق ہیں۔
تو جب سانپ اور بچھو کو حالت احرام میں حرم میں مارنے کا حکم ہے اور پھر نماز جیسی عبادت میں مارنے کا حکم تو ان خبیث اور موذی چیزوں کی تجارت کیونکر درست ہو سکتی ہے جبکہ ان کے حرام ہونے کی صراحت بھی واضح ہے۔
بلکہ گندگی و فسق پر مبنی چیزوں کی حرمت تو قرآن کریم سے ثابت ہے
ارشاد باری تعالی ہے۔
قُلْ لَّآ اَجِدُ فِیْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلٰی طَاعِمٍ یَّطْعَمُہٗٓ اِلَّآ اَنْ یَّکُوْنَ مَیْتَۃً اَوْدَمًا مَّسْفُوْحًا اَوْ لَحْمَ خِنْزِیْرٍ فَاِنَّہٗ رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا اُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِه
پیارے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم آپ فرما دیں میں اس وحی میں جو میری طرف کی گئی ہے، کسی کھانے والے پر کوئی چیز حرام نہیں پاتا جسے وہ کھائے، سوائے اس کے کہ وہ مردار ہو یا بہایا ہوا خون ہو یا خنزیر کا گوشت ہو کہ بے شک وہ گندگی ہے، یا فسق ونافرمانی (کا باعث) ہو، جس پر غیر الله کا نام پکارا گیا ہو
[الأنعام : 145]
إِنَّمَا حَرَّمَ عَلَيْكُمُ الْمَيْتَةَ وَالدَّمَ وَلَحْمَ الْخِنزِيرِ وَمَا أُهِلَّ بِهِ لِغَيْرِ اللَّهِ ۖ فَمَنِ اضْطُرَّ غَيْرَ بَاغٍ وَلَا عَادٍ فَلَا إِثْمَ عَلَيْهِ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ
تم پر مردہ اور (بہا ہوا) خون اور سور کا گوشت اور ہر وہ چیز جس پر اللہ کے سوا دوسروں کا نام پکارا گیا ہو حرام ہے (١) پھر جو مجبور ہوجائے اور وہ حد سے بڑھنے والا اور زیادتی کرنے والا نہ ہو، اس پر ان کے کھانے میں کوئی پابندی نہیں، اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔
1۔ ”اِنَّمَا“ کا لفظ حصر کے لیے آتا ہے، اس لیے آیت سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے صرف یہ چار چیزیں حرام کی ہیں ، ان کے سوا کچھ حرام نہیں اور دوسری آیت میں اس سے بھی صریح الفاظ میں یہ بات ذکر ہوئی ہے، فرمایا:
﴿قُلْ لَّآ اَجِدُ فِیْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلٰی طَاعِمٍ یَّطْعَمُہٗٓ اِلَّآ اَنْ یَّکُوْنَ مَیْتَۃً اَوْدَمًا مَّسْفُوْحًا اَوْ لَحْمَ خِنْزِیْرٍ فَاِنَّہٗ رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا اُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ ﴾ [ الأنعام : ۱۴۵] ’’
کہہ دے میں اس وحی میں جو میری طرف کی گئی ہے، کسی کھانے والے پر کوئی چیز حرام نہیں پاتا جسے وہ کھائے، سوائے اس کے کہ وہ مردار ہو یا بہایا ہوا خون ہو یا خنزیر کا گوشت ہو کہ بے شک وہ گندگی ہے، یا نافرمانی (کا باعث) ہو، جس پر غیر اللہ کا نام پکارا گیا ہو۔‘‘
شیخ الحدیث مفسر قرآن شیخ حافظ عبدالسلام بن محمد بھٹوی رحمه الله لکھتے ہیں
یعنی آپ اعلان کر دیں کہ میری وحی میں ان چیزوں کے علاوہ اور کوئی چیز حرام نہیں، مگر اس پر اشکال یہ ہے کہ دوسری آیات و احادیث سے ان کے علاوہ اور بھی بہت سی چیزوں کی حرمت ثابت ہے، مثلاً خمر یعنی ہر نشہ آور چیز اور درندے وغیرہ، تو یہاں صرف انھی چیزوں کو کیسے حرام کہا گیا؟ اس کا جواب یہ ہے کہ یہاں تمام حلال و حرام کا ذکر نہیں، بلکہ ان مخصوص جانوروں کی بات ہو رہی ہے جنہیں مشرکین مکہ نے حرام کر رکھا تھا، جب کہ آیت میں مذکور چاروں حرام چیزوں سے وہ اجتناب نہیں برتتے تھے، اس لیے ان کے اس فعل کے بالمقابل انھیں بتایا گیا کہ الله کے نزدیک فلاں فلاں چیزیں حرام ہیں جن سے تم اجتناب نہیں کرتے اور جو اللہ کے نزدیک حلال ہیں ان سے تم پرہیز کرتے ہو، گویا یہاں صرف ان مشرکین کی نسبت سے اور ان کے بالمقابل بات کی گئی ہے۔ اسے عربی میں حصر اضافی کہتے ہیں۔ یہ حصر مطلق یعنی عام قاعدہ نہیں ۔
2۔حرام و حلال سے متعلق قرآن و حدیث میں ان چار چیزوں کے علاوہ جو بنیادی احکام بیان ہوئے ہیں وہ یہ ہیں: (1) سمندر کا ہر جانور خواہ زندہ پکڑا جائے یا مردہ، نام اس کا کچھ بھی ہو، حلال ہے۔ دیکھیے حاشیہ سورۂ مائدہ (96) مراد اس سے پانی میں رہنے والے وہ جانور ہیں جو پانی کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتے، خواہ سمندر میں ہوں یا دوسری جگہ پانی میں ، یعنی دریا وغیرہ میں ۔ (2) خشکی کے جانوروں میں سے ہر کچلی والا درندہ اور پنجے سے شکار کرنے والا پرندہ حرام ہے، ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں :
(( اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ نَہَی عَنْ کُلِّ ذِیْ نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ وَ عَنْ کُلِّ ذِیْ مِخْلَبٍ مِنَ الطَّیْرٍ)) [مسلم، الصید والذبائح، باب تحریم أکل کل ذی …. : 1934]
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے ہر کچلی والے جانور اور پنجوں سے شکار کرنے والے پرندوں ( کے گوشت) کو حرام قرار دیا ہے۔‘‘ اس کے علاوہ حدیث میں جن جانوروں کو نام لے کر حرام کہا گیا ہے، مثلاً گھریلو گدھا یا وہ جانور جنھیں جہاں ملیں مار دینے کا حکم ہے، یعنی سانپ، بچھو، چھپکلی، کوا، چیل وغیرہ۔ قرآن و حدیث میں حرام کردہ چیزوں کے علاوہ باقی سب چیزیں حلال ہیں
[تفسیر القرآن الکریم ،تفسیر سورۃ البقرہ: 173]
ایسے ہی رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے چھپکلی کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے
سیدہ ام شریک رضى الله عنها سے روایت ہے
ﺃﻥ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺃﻣﺮﻫﺎ ﺑﻘﺘﻞ اﻷﻭﺯاﻍ
کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ہمیں چھپکلی کو قتل کرنے کا حکم دیا۔
[دیکھیے صحيح البخارى : 3307 صحیح مسلم : 2237]
سیدنا سعد بن وقاص رضی الله عنہ سے روایت ہے
ﺃﻥ اﻟﻨﺒﻲ ﺻﻠﻰ اﻟﻠﻪ ﻋﻠﻴﻪ ﻭﺳﻠﻢ ﺃﻣﺮ ﺑﻘﺘﻞ اﻟﻮﺯﻍ ﻭﺳﻤﺎﻩ ﻓﻮﻳﺴﻘﺎ [صحیح مسلم : 2238]
اور اسے مارنے پر اجر وثواب بھی بیان فرمایا دیکھیے صحیح مسلم : 2240
تو اگر یہ چیزیں حلال و طیب ہوتیں تو انہیں مارنے کا کبھی حکم نہیں دیا جاتا کیونکہ کتاب وسنت میں کسی بھی حلال جانور کو قتل کرنے کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ انہیں ذبح کرنے کا حکم دیا گیا اور اس بارے احکام بہت واضح طور پر کتاب وسنت میں موجود ہیں
تو یہ حشرات الارض حرام ہیں اور حرام وخبیث چیزوں کی تجارت ،خرید وفروخت بھی حرام ہے۔ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
ﻭﺇﻥ اﻟﻠﻪ ﺇﺫا ﺣﺮﻡ ﻋﻠﻰ ﻗﻮﻡ ﺃﻛﻞ ﺷﻲء ﺣﺮﻡ ﻋﻠﻴﻬﻢ ﺛﻤﻨﻪ
[سنن ابو داود : 3488 ،مسند أحمد: 2221 ،2678 ،2961 ،مصنف ابن أبي شيبة: 20381 صحیح]
اور اس کا شاہد [دیکھیے الجعديات / مسند علي بن الجعد: 3319]
اس کی مثال شراب حرام ہے تو اس کی تجارت بھی حرام ہے
رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
ﺇﻥ اﻟﺬﻱ ﺣﺮﻡ ﺷﺮﺑﻬﺎ ﺣﺮﻡ ﺑﻴﻌﻬﺎ:
[موطا امام مالک :2/ 846 ،مسند الشافعی:1461 ،صحیح مسلم: 1579]
رب العالمین نے ابن آدم کو صرف حلال اور طیب کھانے کا حکم دیا ہے، چند ایک ارشاد باری تعالی پیش خدمت ہیں:
يَا أَيُّهَا النَّاسُ كُلُوا مِمَّا فِي الْأَرْضِ حَلَالًا طَيِّبًا وَلَا تَتَّبِعُوا خُطُوَاتِ الشَّيْطَانِ ۚ إِنَّهُ لَكُمْ عَدُوٌّ مُّبِينٌ
اے لوگو! ان چیزوں میں سے جو زمین میں ہیں حلال، پاکیزہ کھاؤ اور شیطان کے قدموں کی پیروی مت کرو، بے شک وہ تمھارا کھلا دشمن ہے
[البقرہ : 168]
وَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلَالًا طَيِّبًا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ الَّذِي أَنتُم بِهِ مُؤْمِنُونَ
اور الله نے تمھیں جو کچھ دیا ہے اس میں سے حلال، طیب کھاؤ اور اس اللہ سے ڈرو جس پر تم ایمان رکھنے والے ہو۔
[المائدہ: 88]
فَكُلُوا مِمَّا رَزَقَكُمُ اللَّهُ حَلَالًا طَيِّبًا وَاشْكُرُوا نِعْمَتَ اللَّهِ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ
سو کھاؤ اس میں سے جو اللہ نے تمھیں حلال، پاکیزہ رزق دیا ہے اور اللہ کی نعمت کا شکر کرو، اگر تم اسی کی عبادت کرتے ہو
[النحل: 114]
رب العالمین کے ان مبارک ارشادات پر غور کریں کہ رب العالمین نے صرف ان چیزوں سے کھانے کا حکم فرمایا ہے جو زمین سے حلال اور طیب ہیں اور یہ ہم جانتے ہیں کہ یہاں زیر بحث چیزیں حلال اور طیب نہیں ہیں نہ ہی ان کے حلال و طیب ہونے پر کوئی دلیل شرعی موجود ہے۔تو یہ قاعدہ واصول سمجھ اور جان لیں کہ جس چیز کا کھانا،پینا حرام ہے اور جو چیز طیب وحلال نہیں اس کی تجارت کرنا بھی حرام اور ایسے ہی یہ بھی جان لیں کہ حرام میں رب العالمین نے شفاء ہرگز نہیں رکھی ہے۔ رب العالمین ہمیں صحیح معنوں میں کتاب وسنت کے مطابق زندگی بسر کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
هذا ما عندي والله أعلم بالصواب
فضیلۃ العالم ابو انس طیبی حفظہ اللہ
آج سانپوں کی کثرت سے تجارت ہوتی ہے، نہ صرف یورپ و افریقہ بلکہ براعظم ایشیا میں بھی عام ہے۔ ہندوپاک بھی اس کی تجارت میں پیش پیش ہیں۔ بہت سے مسلمان سانپوں کی تجارت کرتے ہیں ۔بعض لوگ میوزیم کو بیچتے ہیں، بعض ہوٹلوں کو فراہم کرتے ہیں۔ عام لوگوں میں بھی بطور خاص سوپ پینے کی غرض سے اسے بیچا جاتا ہے۔ سانپ حرام جانور ہے جس کے قتل کا حکم ہوا ہے، اور حرام جانور کی بیع وشراء شریعت میں ممنوع ہے۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے:
“إنَّ اللهَ إذا حرَّمَ على قومٍ أكْلَ شيءٍ حرَّمَ عليهم ثَمَنَهُ” [صحيح الجامع : 5107]
ترجمہ: بے شک اللہ تعالی جب کسی قوم پر کوئی چیزکھانا حرام کرتا ہے تو اس کی قیمت کی اس پر حرام کردیتا ہے۔
امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
ما لا ينتفع به [من الحيوانات] لا يصح بيعه ، كالخنافس ، والعقارب ، والحيات ، والفأر ، والنمل ، ونحوها
[روضة الطالبين:3 /351]
ترجمہ: جن حیوانوں سے فائدہ نہیں اٹھایا جاتا ہے ان کی تجارت صحیح نہیں ہے مثلا گوبریلا، بچھو، سانپ ، چوہا، چیونٹی اور ان جیسے۔
سعودی عرب کی دائمی کا فتوی ہے: کسی بھی تجارتی معاملے کے درست ہونے کی شرائط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ بلا ضرورت بھی اس سے نفع کا حصول ممکن ہو، اور سانپوں میں کوئی فائدہ نہیں ہے، بلکہ ان میں تو نقصان ہے، لہذا اس کی خرید وفروخت کرنا جائز نہیں ہے، اور یہی حکم چھپکلی وغیرہ کا ہے، کہ اس میں کوئی فائدہ نہیں ہے، لہذا اس کی خرید وفروخت جائز نہیں ہے۔
ثابت یہ ہوا کہ سانپ کی خرید و فروخت منع ہے خواہ زہر والا ہو یا زہر والا نہ ہو۔
فضیلۃ الباحث کامران الہیٰ ظہیر حفظہ اللہ