سوال (1942)

کیا ساس یا بیٹی کو شہوت کی نظر سے دیکھنے یا چھونے سے بیوی حرام ہو جاتی ہے؟

جواب

قرآن وسنت کے مطابق بيوی کے علاوہ کسی بھی عورت کو شہوت کی نظر سے دیکھنا یا چھونا یہ انتہائی قبیح عمل ہے اور اسے زنا کے مقدمات میں سے شمار کیا گیا ہے، یہی حرکت اگر اپنی بیٹی یا ساس کے حوالے سے سرزد ہو تو یہ اور بھی بری اور قابل مذمت ہے۔ لیکن راجح قول کے مطابق اس حرام کام کے ارتکاب سے کسی شخص کی بیوی اس پر حرام نہیں ہوتی۔ كيونکہ حرام کی وجہ سے حلال حرام نہیں ہوتا۔
شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ سے یہ سوال پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:

’’لا يحرم ، لأنه لا يدخل في الآية ، قال تعالى: ( وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُمْ مِنْ نِسَائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَإِنْ لَمْ تَكُونُوا دَخَلْتُمْ بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ ) قال (مَا نَكَحَ آبَاؤُكُمْ ) والزانية لا تدخل في هذا’’. [الشرح الممتع 5/203]

یعنی اس طرح حرمت ثابت نہیں ہوتی کیونکہ جس آیت میں حرمت کا بیان ہے، وہاں اس حرمت کو نکاح کے ساتھ جوڑا گیا ہے، جبکہ یہ زنا یا مقدماتِ زنا میں سے ہے، نکاح نہیں ہے۔
یہ تو تھا حلال و حرام سے متعلق ایک شرعی مسئلہ، لیکن یاد رکھیں جو شخص اس قسم کی بری حرکت کے اندر مبتلا ہے، وہ انتہائی خطرناک مرحلے میں داخل ہو چکا ہوا ہے، گویا کہ اس کی فطرت مسخ ہو چکی ہوئی ہے، ورنہ فطرت سلیمہ یہ کیسے گوارہ کر سکتی ہے کہ کوئی شخص اپنی بیٹی یا بیوی کی بیٹی یا اس کی ماں کو غلط نظروں سے دیکھے یا کسی غلط سوچ کے ساتھ دست درازی کرے… ایسے شخص کو چاہیے کہ اپنا محاسبہ کرے، رزقِ حلال کی پابندی کرے، اسی نماز روزے جیسے فرائض میں بالکل کوتاہی نہ کرے، اور اذکار کی بھی پابندی کرے، تاکہ اللہ تعالی اس کے دل و دماغ میں بھری گندگی کی صفائی کا بندوبست فرمائے، ورنہ اس کا انجام اس سے بھی زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے، جس کی انتہا بعض دفعہ قتل و غارتگری، خود کشی وغیرہ جیسے جرائم ہوتے ہیں۔ اللہ تعالی سب کے حال پر رحم فرمائے۔

فضیلۃ العالم حافظ خضر حیات حفظہ اللہ